ادیب و شعراء اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کو انسانیت کی بقاء اور ظلم و استبداد کے خلاف جہاد کے طور پر استعمال کر یں

صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کا شاعر طاہر حنفی کے شعری مجموعے ’’گونگی ہجرت‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب

منگل 3 مارچ 2020 17:03

ادیب و شعراء اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کو انسانیت کی بقاء ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 مارچ2020ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ ادیب و شعراء اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کو انسانیت کی بقاء اور ظلم و استبداد کے خلاف جہاد کے طور پر استعمال کر یں۔ دکھی انسانیت اور پسے ہوئے طبقے کی آواز بن کر ظالموں اور ستم گروں کو چیلنج کریں تو آپ کی سٴْخن وری عبادت بن جائے گی۔

آج کشمیر کے اس پار لاکھوں مظلوم لوگ جو آگ کے شعلوں میں لپٹے ہیں آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہاں کی مجبور و بے کس مسلمان مائیں، بیٹیاں، بہنیں، بچے، بوڑے اور نوجوان آپ ارباب علم و دانش اور سخن وروں کو پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اپنے قلم کوخدا راہ جنبش دیں اور ہمارے اوپر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کریں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار سردار مسعود خان نے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں ادبی و ثقافتی تنظیم اشارہ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام معروف شاعر طاہر حنفی کے شعری مجموعے ’’گونگی ہجرت‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر، پروفیسر سبین یونس، سید ابرار حسین سابق سفیر کویت/افغانستان، محترمہ پروین طاہر، جناب جبار مرزا، جمال ناصر عثمانی، اکبر علی عباس اور طاہر حنفی نے خطاب کیا۔

تقریب میں چند سابق پاکستانی سفیروں سمیت نوجوان ادیبوں، شعراء اور میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ صدر گرامی نے سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج ہم یہاں اس ادبی تقریب میں شریک ہیں لیکن پاکستان کی شہ رگ کشمیر دشمن کے پنجہ استبداد کے نیچے ہے۔ آج کشمیر جل رہا ہے، پانچ اگست کے حالیہ ہندوستانی اقدام کے بعد پوری مقبوضہ ریاست کو ایک قید خانے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

لوگوں کی نقل و حرکت اور ان کے بنیادی انسانی حقوق سلب کردئیے گے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی آزادی پر قد غن ہے۔ آزادی رائے اور میڈیا پر مکمل پابندی ہے۔ عورتوں کی آب رو ریزی روزمرہ کا معمول ہے۔ تیرہ ہزار نوجوان بچوں کو اٹھا لیا گیا ہے اور عقوبت خانوں میں بند کر کے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اور تو اور معصوم بچوں کو ہندوستانی فوج روندنے سے نہیں کتراتی اور 85سالہ بوڑھی خاتون کو بھی جلا ڈالا۔

سفاکیت کا دور دورہ ہے اور کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم سب پر فرض ہے کہ ہم جس بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں ہم شاعرہوں، ادیب ہوں، دانشورہوں، پروفیسرہوں، طالبعلم ہوں یا جو کچھ بھی ہوں ہم ضرور اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے اپنے دکھی بہن، بھائیوں کی مدد کریں۔ ان کے حق خودارادیت کی حمایت کریں۔

انہیں ہندوستانی دہشت اور درندگی سے بچائیں۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 1950-60کی دہائی میں مصنفین اور حلقہ ارباب ذوق نے مختلف ناول، افسانے، انشائیے اور مضامین لکھے تھے اور آج بھی وقت ہے کہ ادیب، مصنف اور شاعر مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کو ختم کرانے کے لئے اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف فسطائی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے لئے اپنی تحریروں اور تقریروں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ضمن میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

اس موقع پر صدر مسعود خان نے اپنے کالج کے زمانہ طالبعلمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں کالجوں میں مباحثے، مشاعرے اور علم و ادب کے معیاری پروگرام باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور ہم سب بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیا کرتے تھے۔ لیکن آج یہ سب کچھ شاید صرف TVکی سکرینوں پر منتقل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سخن ور تو نہیں رہے لیکن سخن شناس ضرور تھے اور علمی و ادبی اور مشاعروں کی محافل میں بڑے انہماک سے شریک ہوئے تھے۔

محترم طاہر حنفی کے شاعری مجموعے ’’گونگی ہجرت‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ یہ ایک انمول تخلیق ہے جس میں قافیہ اور ردیف کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ صدر نے کہا کہ نامور شاعر اور دانشور ادیب افتخار عارف نے بھی طاہر حنفی کے کلام اور ان کی شاعری کی تعریف و توصیف کی ہے اور استادوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر بھی آج اس تقریب میں بنفس نفیس موجود ہیں اور وہ بھی حنفی صاحب کے کلام اور صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ تقریب کے آخر میں صدر مسعود کو تقریب میں موجود مختلف ادیبوں اور شاعروں نے اپنی اپنی کتابوں کا تحفہ پیش کیا۔