پاکستان میں ہر عمر کے افراد کو ذہنی دبائو کا سامنا ہے، میئر کراچی

معاشی صورتحال، بے روزگاری، عدم برداشت اور معاشرتی رویے کے باعث ذہنی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں،وسیم اختر

جمعہ 13 مارچ 2020 22:19

پاکستان میں ہر عمر کے افراد کو ذہنی دبائو کا سامنا ہے، میئر کراچی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مارچ2020ء) میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر عمر کے افراد کو ذہنی دبائو کا سامنا ہے، معاشی صورتحال، بے روزگاری، عدم برداشت اور معاشرتی رویے کے باعث ذہنی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کے زیر اہتمام آل پارلیمنٹری مینٹل ہیلتھ سمٹ 2020 سے خطاب کرتے ہوئے کہی، قبل ازیں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایوان صدر میں ہیلتھ سمٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا، ممبر قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے آل پارلیمنٹری مینٹل ہیلتھ سمٹ 2020 کا اہتمام کیا تھا، یونیورسٹی آف مانچسٹر گلوبل نیشنل ہیلتھ انیشیٹوز کے سربراہ پروفیسر نصرت حسین، پروفیسر آف سائیکالوجی ڈا یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر عمران بشیر چوہدری نے اس سمٹ میں خصوصی طور پر شرکت کی، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایوان صدر میں افتتاحی تقریب میں میئر کراچی وسیم اختر کی موجودگی کو سراہا اور اس امید کا اظہار کیا کہ کراچی میں ذہنی صحت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گا، صدر پاکستان میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ذہنی صحت کے حوالے سے ایک نیشنل پالیسی بنائی جائے جس پر پورے پاکستان میں یکساں طور پر عمل کیا جائے، میئر کراچی نے ذہنی صحت کے حوالے سے منعقدہ سمٹ کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان کے ذہنی صحت کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کی تمام سطحوں پر سپورٹ کریں گے، کے ایم سی کے اسپتالوں میں اور ہیلتھ کیئر سینٹرز اس سلسلے میں کام کریں گے اور منتخب بلدیاتی نمائندے بھی ذہنی دبا، ڈپریشن اور صحت مندانہ اقدامات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی مہم چلائیں گے، میئر کراچی نے کہا کہ پاکستان میں ذہنی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں اور اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے جو نہ صرف فکر انگیز ہے بلکہ لوگوں کی ذہنی صحت کو بہتر کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی حالات، بے روزگاری، صحت کی سہولیات کی کمی اور دیگر کئی عوامل ایسے ہیں جس کے باعث لوگ ذہنی دبا، ڈپریشن اور دیگر بیماری میں مبتلاہوتے ہیں خصوصا خواتین زچگی کے بعد شدید ذہنی دبا کا شکار ہوتی ہیں جس کے لئے ضروری ہے کہ بروقت ان کی رہنمائی اور کونسلنگ کی جائے، انہوں نے کہا کہ اگر ہم ذہنی صحت کے حوالے سے لوگوں کو تقسیم کریں تو ان میں بچے، نوجوان، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں، ہر عمر کے لحاظ سے مختلف ذہنی دبا ہوتے ہیں خاص طور پر بے روزگاری یا تعلیم یا معاشی حالت کے باعث تعلیم حاصل نہ کرنے والے نوجوان بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں، ہمارے اکثر گھرانوں میں پورے گھر کی مالی ذمہ داری کسی ایک شخص کے ذمے ہوتی ہے جس کے باعث وہ ہمہ وقت ذہنی دبا اور ڈپریشن کا شکار رہتا ہے، انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لوگ ذہنی دبا کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی ذہنی صحت کھو بیٹھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اکثر بوڑھے افراد کو ہم نظر انداز کردیتے ہیں جبکہ انہیں بھی کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے، میئر کراچی نے اس موقع پر کہا کہ کے ایم سی کے زیر اہتمام پارکوں میں ایسے مخصوص ایریاز بنائے جائیں گے جو صرف بزرگوں کیلئے مخصوص ہوں گے اور کچھ نئے پارک صرف سینئر سٹیزن کے لئے ہی بنائے جائیں گے، کے ایم سی کے اسپتالوں میں جیریاٹک وارڈز (Geriartic Wards) بنائے جائیں گے تاکہ وہاں بزرگوں کی دیکھ بھال کی جاسکے اور ان کی ذہنی صحت کے حوالے سے علاج معالجے کی خصوصی سہولت فراہم کی جاسکے، میئر کراچی وسیم اختر نے کے ایم ڈی سی کے شعبہ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز اور شعبہ ریسرچ کے سربراہ پروفیسر فرحت جعفری کو ہدایت کی ہے کہ وہ عباسی شہید اسپتال میں رجسٹری بنائیں اور خود کشی کی سوچ اور ارادے کے حامل افراد کا ڈیٹا مرتب کیا جائے اور اسپتال آنے والے ایسے افراد کی کونسلنگ سروسز فراہم کی جائے، پروفیسر فرحت جعفری نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک ہیلپ لائن بنائی جائے گی اور ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے علاج اور کونسلنگ کے لئے مدد فراہم کی جائے گی۔