پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام کرونا وائرس پر پہلی ورچوئل کانفرنس

کرونا وائرس سے نمٹتے ہوئے ذہنی بیماریاں پیدا نہ ہونے دیں، ذہنی بیماریاں کرونا وائرس سے ذیادہ خطرناک ثابت ہوں گی،کرونا وائر س سے نمٹنے کے لئے مختلف شعبوں کے ماہرین پر مبنی قومی ٹاسک فورس قائم ہونی چاہئیے، قوت مدافعت بڑھانے کے لئے اچھی خوراک استعمال کریں، ماہرین

ہفتہ 28 مارچ 2020 23:26

لاہور۔28 مارچ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 مارچ2020ء) پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کرونا وائرس سے نمٹتے ہوئے عوام میں ذہنی بیماریاں نہ پیدا ہو جائیں جو کہ کرونا وائرس سے ذیادہ خطرناک ثابت ہوں گی ۔ وہ پنجاب یونیورسٹی اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے روڈ میپ کے موضوع پر پہلی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

کانفرنس کی صدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر نے کی جبکہ اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدرپروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری، سیکرٹری جاوید سمیع، ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی، ڈین فیکلٹی آف فارمیسی پروفیسر ڈاکٹر عرفان ندیم بخاری، ڈین فیکلٹی آف اکنامکس اینڈ مینجمنٹ سائنسز پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، ڈین فیکلٹی آف کامرس پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان، سائنس ، لائف سائنسز، سوشل سائنسز ، آرٹس، فارمیسی اور دیگر فیکلٹیوں سے ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرو وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر سلیم مظہر نے کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹتے ہوئے عوام کو خوفزدہ نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائر سے متعلق درست معلومات فراہم کرنی چاہئیں لوگوں کو کرونا سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لئے آگاہی ہونی چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ گھر بیٹھ کر بھی عوام کو بہترین انداز میں وقت گزارنے کی آگاہی پیدا کرنی چاہییے ورنہ تو اگر صحت مند آدمی بھی ہفتہ گھر بیٹھے تو بیمار ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے بحرانوں میں یونیورسٹیاں ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان حالات میں پنجاب یونیورسٹی نے اپنا قومی کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر حماد لکھوی نے کہا کہ مومن کا دنیا کو دیکھنے کا نظریہ دوسروں سے مختلف ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دوباتیں اہم ہیں کہ بیماری آئے یا نہ آئے، موت ہر حال میں آنی ہے انہوں نے کہا کہ بیماری سے نمٹنے کی تدبیر ضرور کریں تاہم اللہ پر بھروسہ کریں اگر اس انداز میں سوچیں گے تو ذہن سے منفی باتیں ختم ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ مومن کو کسی بھی صورت مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ انہوںنے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں کرونا سے بڑی بیماریاں اور وبائیں آئی ہیں اس بیماری کو بھی ایمان کی نظر سے دیکھنے پر پریشانی سے نجات ملے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری نے کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے تمام متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین پر مبنی قومی سطح ٹاسک فورس بنائی جانی چاہئیے تاکہ اس بیماری سے نمٹنے کے لئے ہر پہلو پر مبنی جامع حکمت عملی بنائی جا سکے اور اس پر عملدرآمد ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہو گا معیشت کی بحالی کے لئے شرح سود میں کمی لانی چاہئے ۔ کانفرنس سے خطاب سے کرتے ہوئے انسٹی ٹیو ٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر نے کہا کہ کرونا کے ستر فیصد مریضوں کا علاج گھر میں ممکن ہے اس سلسلے میں گھر میں کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال اور احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی فراہم کرنی چاہئے ۔

ا نہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے لئے مقامی شواہد پر مبنی پالیسی بننی چاہئی۔ انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر رافعہ رفیق نے کہا کہ کرونا وائرس سے نمٹتے نمٹتے حکومت کے لئے عوام کی ذہنی صحت کے مسائل سے بھی نمٹنا لازمی ہے وگرنہ ذہنی بیماریاں کرونا سے ذیادہ خطرناک ثابت ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ مینٹل اپیڈیمک کرونا پینڈیمک سے ذیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ننانوے فیصد سے ذیادہ آبادی کرونا وائرس کا شکار نہیں ہے اس لئے لوگوں میں امید کا تاثر ذیادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ شعبہ جغرافیہ سے ڈاکٹر صائمہ صدیق نے کہا کہ ڈیٹابیس کی بنیاد پر پاکستان کا جغرافیائی نقشہ بننا چاہئے کہ کن علاقوں میں کرونا وائرس کس تناسب سے ہے تاکہ عوام ان علاقوں میں کرونا وائرس سے متعلق حفاظتی تدابیر حسب ضرورت اپنا سکیں کیونکہ ثقافتی طور پر پاکستان میں لوگوں کا میل جول کافی ذیادہ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عرفان ندیم بخاری نے کہا کہ لوگوں میں خوف پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ علاوہ ازیں لاک ڈاون کے دوران جو لوگ ناکوں پر ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں ان کی بھی تربیت ہونی چاہئے۔ کالج آف سٹیٹسٹیکل اینڈ ایکچوریل سائنس کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سہیل چاند نے کہا کہ کرونا وائرس کے مریضوں کا پیٹرن دیکھیں تو اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس اس رفتار سے نہیں پھیل رہا۔

اور ایسی مثبت باتیں لوگوں کو بتانی چاہئیں۔ ڈاکٹر اظہر علی نے کہا کہ حکومت اپنی مہم میں لوگوں میں قوت مدافعت بڑھانے والی خوراک سے متعلق بھی آگاہی کو شامل کرے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ دودھ، انڈوں، فروٹ اور ڈرائی فروٹ کا استعمال کریں۔ اسسٹنٹ پروفیسر شاہزیب خان نے کہا کہ سوشل میڈیا جعلی خبروں سے بھرا پڑا ہے جس کا فوری سدباب ہونا چاہئے اور سخت پالیسی بنانی چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ سائنسدانوں کو کرونا وائرس سے متعلق بائیو ٹررازم کے پہلو پر بھی کھل کر بات کرنی چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پاکستان جیسے ملک کے لئے کوئی بہتر سٹریٹجی نہیں۔ ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ درست معلومات ایسے انداز میں لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو عام فہم ہوں اور جسے ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا آدمی بھی سمجھ سکے۔

ڈاکٹر مبشر منور خان نے کہا کہ کرونا سے متعلق واقعات کی معروضی رپورٹنگ بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کی بڑھتی قیمت پاکستان کے لئے اچھی خبر نہیں اس وقت صنعتیں ، فیکٹریاں اور چھوٹے کاروبار بند ہیں اور ابھی سے مستقبل کی معاشی منصوبہ بندی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ڈاکیومنٹڈ اور نان ڈاکیومنٹڈ کے چکر سے باہر نکل کر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے سہولیات پیدا کرے۔ ڈاکٹر ماجد علی نے کہا کہ اس بحران میں بھی حکومت بہت سے کاروباری مواقعوں کی نشاندہی کرے۔