مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی.سپریم کورٹ

موٹرو ے کی طرف سے پہاڑ دیکھیں تو سارا پہاڑ کٹا ہوا ‘وفاقی دارالحکومت کے میئرکام نہیں کرسکتے تو گھر چلے جائیں. ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 1 جون 2020 17:10

مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی.سپریم کورٹ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم جون۔2020ء) چیف جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں آلودگی کے حوالے سے واضح کردیا ہے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں اسلام آباد میں فضائی آلودگی سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی. چیف جسٹس نے کہا کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی اگر موٹرو ے کی طرف سے پہاڑ دیکھیں تو سارا پہاڑ کٹا ہوا ہے انہوں نے کہاکہ اب تھوڑا سا پہاڑ بچا ہے اور اس کو ہم نے بچایا ہے، وفاقی حدود (آئی سی ٹی) کے اندر کان کنی نہیں ہوسکتی اور یہ علاقہ سینکڑوں کلو میٹرز پر محیط ہے.

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ حدود ایبٹ آباد تک جاتی ہے اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر سید قلب حسن نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست اور ریکارڈ کو بھی دیکھیں انہوں نے کہا کہ سروے آف پاکستان سے نشاندہی کی گئی ہے کہ ہزار میٹر کے فاصلے پر بفرزون کے بعد یہ پلانٹ لگے ہوئے ہیں. سید قلب حسن نے کہا کہ ملک کے اہم تعمیراتی منصوبوں کے لیے مٹیریل یہاں سے جاتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ سارا ریکارڈ ہمارے پا س ہے اور ہم مارگلہ پہاڑوں پر توڑپھوڑ کی اجازت نہیں دیں گے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیشنل پارک کا مقصد جنگلات اورجنگلی حیات کا تحفظ ہے اور آئی سی ٹی کی حد تک پہاڑ کو متاثر نہیں کیا جاسکتا.

انہوں نے کہا کہ یہ پہاڑ قومی اثاثہ ہیں اسے خراب نہیں ہونے دیں گے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ملک کے کسبی بھی علاقے سےکریش لے لیں لیکن یہاں سے اجازت نہیں دیں گے صدر سپریم کورٹ بار سید قلب حسن نے کہا کہ مخدوم علی خان کی جانب سے بھی ایک کیس میں درخواست آئی ہے لیکن آج ان کو ایمرجنسی کے باعث کراچی واپس جانا پڑا انہوں نے استعداد کی کہ عدالت آج اس کیس کو ملتوی کردیے.

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے میئر کے اختیارات کیس کی سماعت کی جہاں میئر اسلام آباد کی سخت سرزنش کی گئی چیف جسس نے میئر اسلام آباد شیخ انصرعزیز کو مخاطب کرکے کہاکہ آپ نے اسلام آباد کے لیے اب تک کیا ہی کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ عدالت نے مجھے اختیارات دینے کا حکم دیا تھا لیکن حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو عہدہ چھوڑ دیں، دوبارہ الیکشن میں عوام کے سامنے کیسے جائیں گے، میئر صاحب کیا آپ من و سلویٰ کے انتظار میں ہیں میئر سے چیف جسٹس نے کہا کہ میئر صاحب لکیر کے فقیر نہ بنیں، آپ منتخب نمائندے ہیں اور اپنی جرات دکھائیں. چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم نہیں آپ عدالت کے علاوہ کہیں اور جاتے ہیں یا نہیں، آپ تو زیادہ وقت پاکستان سے باہر ہی گزارتے ہیں تاہم میئر نے جواب دیا کہ 6 ماہ سے بیرون ملک نہیں گیا چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کورونا کی وجہ سے آپ پھنسے ہوئے ہیں، نیت صاف نہ ہو تو کام نہیں ہوتے جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ نعمت اللہ خان اور شجاع الرحمٰن لیجنڈ میئرز تھے.

انہوں نے کہا کہ ہم نے میئرز کو اپنے ہاتھوں سے کام کرتے دیکھا ہے نہ کہ لیڈر بازی کرتے تھے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10 ہزار سے زائد کا عملہ کر کیا رہا ہے جبکہ سارا اسلام آباد گندا پڑا ہے. سپریم کورٹ نے میئر اسلام آباد کے اختیارات پر کمیٹی تشکیل دے دی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد شامل ہیں عدالت نے کمیٹی کوایک ماہ میں میئر کے اختیارات کا مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کردی.

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز کی 90 دن کی معطلی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں کام کی اجازت دے دی تھی رواں سال کے اوائل میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے میئر اسلام آباد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں ان پر اختیارات کے غلط استعمال اور سرکاری املاک، عملے اور وسائل کو ذاتی طور پر استعمال کرنے الزامات عائد کیے گئے تھے.

یہ ریفرنس کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے رکن ہمایوں اختر کی جانب سے فائل کیا گیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی نواز اعوان کی زیر سربراہی قائم مقامی حکومت کے کمیشن نے معاملے کی تحقیقات تک میئر کو معطل کرنے کی سفارش کی تھی. البتہ شیخ انصر عزیز نے اس ریفرنس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر الزامات لگائے گئے ہیںبعدازاں 17 مئی کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد حکومت نے میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز کو 90 روز کے لیے معطل کر دیا گیا تھا.