عالمی ادارہ صحت جدت کا راستہ روک کر کروڑوں لوگوں کی جانیں بچانے کا موقع ضائع کر رہا ہے،بین الاقوامی ماہرین

اتوار 7 جون 2020 17:15

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 جون2020ء) تمباکو پالیسی کے بین الاقوامی ماہرین نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) جدت کا راستہ روک کر کروڑوں لوگوں کی جانیں بچانے کا موقع ضائع کر رہا ہے، جس سے کینسر، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں کمی کے اہداف حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ غیر جانبدار ماہرین کے بین الاقوامی گروپ جس کے تمباکو اور ویپنگ کی صنعت کے ساتھ کسی قسم کے متنازعہ تعلقات نہیں، عالمی ادارہ صحت پر اس کے ویپنگ مصنوعات کے بارے میں دقیانوسی طرز عمل کی وجہ سے شدید تنقید کی ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی نئی ٹیکنالوجی سے روایت پرستانہ دشمنی پر مایوسی ہے اور خدشہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ صحت سگریٹ نوشی کی وجہ سے کروڑوں افراد کی قبل از وقت اموات کو روکنے کا موقعہ ضائع کر دے گا۔

(جاری ہے)

نیو یارک یونیورسٹی کے سکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر ڈیوڈ ابرامز نے کہا ہے کہ بلاشبہ ویپنگ اوربغیر دھوئیں کے نکوٹین پہنچانے والی مصنوعات سگریٹ نوشی کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہیں اور جو لوگ مکمل طور پر انہیں استعمال کرتے ہیں ان کی صحت میں تیزی سے بہتری آتی ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارہ صحت ان مصنوعات کو مکمل ممنوع قراردینے اور سخت پابندیوں کی مسلسل حمایت کر رہا ہے۔

اگر سگریٹ ہر جگہ دستیاب ہیں تو نسبتاً بہت محفوظ مصنوعات پر پابندی کا کیا مطلب ہی. گروپ نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کینسر، دل اور پھیپھڑوں کے امراض میں کمی لانے کے اہم بین الاقوامی اہداف حاصل نہیں کر سکے گا جبکہ پائیدار ترقیاتی کے اہداف کے تحت ضروری ہے کہ غیر متعدی امراض سے ہونے والی عالمی اموات کی شرح میں ایک تہائی کمی لائی جائے۔

یونیورسٹی آف آکلینڈ نیوزی لینڈ کے ایمریٹس پروفیسر اور عالمی ادارہ صحت کے شعبہ دائمی امراض و فروغِ صحت کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر رابرٹ بیگل ہول نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت اس خیال کو رد کرنے کی بجائے اسے قبول کرے۔ امریکی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والے ٹام ملر جو تمباکو کی صنعت کو جوابدہ بنانے کے سلسلہ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھنے والے مقدمہ میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت اپنے مِشن اور مقصدکا شعور کھو بیٹھا ہے۔ مِلر نے کہا کہ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے عالمی ادارہ صحت بھول چکا ہے کہ اس کا کام زندگیاں بچانا اور بیماریوں میں کمی لانا ہے۔ ہم صارفین کو سگریٹ نوشی کی بجائے کم خطرناک مصنوعات کو اپنانے میں مدد دے کر اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان مصنوعات کے نسبتاً بہت کم نقصانات کو ایمانداری سے تسلیم کریں اور دانشمندانہ قواعد و ضوابط کے ذریعے متبادل اختیار کرنے کے عمل کو پر کشش بنائیں۔

گروپ نے مزید کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت تمباکو نوشی کی روک تھام کے سلسلے میں اپنا راستہ کھو رہا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور کے لی کوان یو سکول آف پبلک پالیسی میں وزٹنگ پروفیسر اور عالمی ادارہ صحت کے ریسرچ پالیسی اینڈ کو آپریشن کے شعبہ کے سابق ڈائریکٹر ٹیکی پینگس ٹو نے کہا ہے کہ جب سال 2000ء میں عالمی ادارہ صحت نے انسداد ِ تمباکو نوشی کے لئے ایک بین الاقوامی معاہدہ کا آغاز کیا تھا تو مقصد بڑا واضح تھا جو دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کی کوشش پر مبنی تھا۔

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ اس سفر میں کہیں عالمی ادارہ صحت اپنے مقصد سے ہٹ چکا ہے اور ایک بند ذہنیت کا شکار ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ناقابلِ عمل، بے لچک اور بے نتیجہ موقف اختیار کر رہا ہے جن کی بنیاد سائنس پر نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ادارے نے اپنے بنیادی مقصد "سب لوگوں کے لئے صحت کا ممکن حد تک اعلیٰ ترین معیار" کو نظر انداز کردیا ہے اور ان لوگوں میں دنیا بھر کے ایک ارب سگریٹ پینے والے بھی شامل ہیں جو بیماری اور قبل از وقت موت سے بچنا چاہتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں وبائی امراض کے پروفیسر اور یو کے سنٹر فار ٹوبیکو اینڈ الکوحل سٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر جان بریٹن نے عالمی ادارہ صحت سے اپنی کوششوں کو دوبارہ اپنے اہم مقاصد یعنی کینسر، دل اور سانس کی بیماریوں میں کمی پر مرکوز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسدادِ تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقعہ پر عالمی ادارہ صحت کے سامنے ایک ہی سوال ہونا چاہئے تھا کہ ہم کس طرح تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد کو تیز ترین رفتار سے کم ترین سطح پر لائیں ہم جانتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت، صحتِ عامہ کے دوسرے شعبوں مثلاً غیر قانونی منشیات اور جنسی صحت کے سلسلہ میں کم سے کم نقصان دہی کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔

اگر عالمی ادارہ صحت بیماریوں کو کم کرنا چاہتا ہے تو ایسے لوگوں کے لئے ایک حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو نکوٹین کو ترک نہیں کر سکتے یا نہیں کریں گے اور اس کا ایک حل 2010ء سے عام ہونے والی بغیر دھوئیں والی مصنوعات کا استعمال ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا سگریٹ پینے والوں کی جانب ’’ترک کرو یا مرجاؤ‘‘ کا رویہ اور نقصان کو کم کرنے کی مخالفت ناقابلِ فہم ہے۔

بھارت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے نارتھ ایسٹرن ہل یونیورسٹی شیلانگ بھارت کے پروفیسر راجیش شران نے کہا ہے کہ ہندوستان میں شعبہ صحت کو تمباکو کے مختلف صورتوں میں استعمال کی وجہ سے کینسر، دل اور سانس کے امراض کا بے انتہا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 200 ملین سے زائد افراد روایتی اشیاء مثلاً گٹکا اور پان استعمال کرتے ہیں اور مزید 100 ملین افراد جلنے والا تمباکو مثلاً بیڑی اور سگریٹ استعمال کرتے ہیں۔

جن میں سب سے زیادہ نقصان کا شکار غریب ترین اور کمزور ترین طبقات ہوتے ہیں، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ میرے خیال میں ہندوستان میں عالمی ادارہ صحت کے تمباکو کی روک تھام کے کنونشن پر عملدرآمد کے باجود تمباکو کے استعمال میں کمی کی رفتار بے حد سست ہے۔ انسدادِ تمباکو نوشی کے عالمی دن 2020ء کے موقع پر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمباکو کے ہرقسم اور ہر شکل میں استعمال میں کمی زور پکڑی! ہندوستان میں تمباکو کے استعمال کا پیچیدہ منظر نامہ حکمت عملی میں تبدیلی کا تقاضہ کرتا ہے جس کے تحت کم سے کم نقصان کا طریقہ کار اپنانا چاہئے۔

گروپ نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کا ذہن سگریٹ کی صنعت میں پھنسا ہوا ہے جبکہ یہ صنعت نئی ٹیکنالوجی کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کینیڈا کی اٹاوہ یونیورسٹی کے ہیلتھ لاء پالیسی اینڈ ایتھکس سنٹر کے ڈیوڈ سویئنر نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت ویپنگ مصنوعات کو تمباکو کے کاروبار والوں کی ایک چال کے طور پر دیکھ رہا ہے مگر ان کی یہ بات سو فیصد غلط ہے۔

دراصل یہ نئی مصنوعات تمباکو کی صنعت کے سگریٹ کے منافع بخش کاروبار کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور سگریٹ کی فروخت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ہم جدت سے حاصل کر سکتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت اور اس کے نجی مالی معاونین اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور ممانعت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے لیکن وہ سگریٹ اور تمباکو کے بڑے کاروبار والوں کے مفادات کی حمایت کر رہے ہیں، نئی ٹیکنالوجی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور سگریٹ کی صنعت کی اجارہ داری کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

گروپ نے انسدادِ تمباکو نوشی کے عالمی دن پر عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ موضوع سے مایوسی ہوئی ہے۔ برطانیہ کے ایکشن ان سموکنگ اینڈ ہیلتھ کے سابق ڈائریکٹر کلائیو بیٹس نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی عمومی طور پر بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے تو پھر عالمی ادارہ صحت نے انسدادِ تمباکو نوشی کے عالمی دن کو سگریٹ نوشی کے سب سے موثر اور مقبول متبادل کو نشانہ بنانے کے لئے کیوں استعمال کیا ہم نے شائد ہی کبھی دیکھا ہو کہ ویپنگ کی صنعت نو بالغوں کے لئے اشتہار بازی کر رہی ہو اور ویپنگ کے اشتہارات میں بچوں کو کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا لیکن انسدادِ تمباکو نوشی کے عالمی دن پر عالمی ادارہ صحت بچوں کی ویپنگ کا اشتہار دے کر غیر مناسب رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔