پاکستان کی خوشحالی براہ راست کراچی کی خوشحالی سے وابستہ ہے سندھ میں ایڈمنسٹریٹرز کا تعین لسانی تعیناتی کے علاوہ کچھ نہیں،ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی

اگرصوبے کی بات کرنا غداری ہے تو آئین کو دیکھیں آئینی آپشن کو غداری کہنا آئین سے غداری ہے صوبے کو بھی ڈسٹرکٹس کی طرح آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہونا وفاقی حکومت اور افواج پاکستان کے زریعے ہم کو اعتماد اور امید ہے کراچی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگا،کنوینیرایم کیوایم پاکستان اے ڈی پی میں 6ارب کا شارٹ فال ہے 4سالوں میں یہ تفصیل میں دے چکا ہوں اسے زیادہ زیادتی نہیں ہو سکتی جو ان چار سالوں میں حکومت سندھ نے کراچی کیساتھ کی، وسیم اختر کراچی،حیدر آباد، میرپور خاص،سکھر،نوابشاہ شہروں کو مردم شماری میں سہی گن لیں تو ہمارے بجائے پیپلز پارٹی نئے صوبے کا مطالبہ کرتی نظر آئیگی، فیصل سبزواری ہماری کمیونٹی کو لاوارث چھوڑ دیا جائے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے اور ان سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے جائیں تو جو سندھ کے اندر احساس محرومی پیدا ہوگی اسکی ذمہ داری پھر سندھ کے حکمرانوں پر ہوگی،خواجہ اظہارالحسن اور دیگرکی پریس کانفرنس

منگل 8 ستمبر 2020 21:35

�راچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 ستمبر2020ء) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد پر رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی براہ راست کراچی کی خوشحالی سے وابستہ ہے سندھ میں ایڈمنسٹریٹر کا تعین لسانی تعیناتی کے علاوہ کچھ نہیں،کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر کا ایڈمنسٹریٹر مقامی ہونا چاہئے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ثابت کردیا کہ سندھ میں میرٹ پر نہ کسی کو نوکری اور نہ پوسٹنگ ملے گی۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس کیا وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت بلدیاتی حکومت کے بجائے بیوروکریٹس کے ذریعے ترقیاتی کام کرائے، گیارہ سو ارب اگر شہر کراچی میں لگاکر ترقی کرنی تھی تو اس شہر کے بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے لگانے تھے،پورے سندھ میں اردو پنجابی و دیگر زبان بولنے والوں کو قابل نہیں سمجھا جاتا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایک لسانی اکائی کے لوگوں کو سندھ میں ایڈمسٹریٹر لگایا گیا وفاقی حکومت نے کیسے قبول کیا،کے فور کامنصوبہ وفاقی و صوبائی حکومت کے درمیان تھا جو آج تک نا مکمل ہے وفاق و ریاست سے درخواست کرتاہوں کہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ تیرہ برس پرانا کے فور منصوبہ کیوں نہ مکمل ہوسکا،ایس تھری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں تباہی ہوئی،گرین لائن پروجیکٹ بھی سابقہ وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے،صوبے کی ذمہ داری تھی گرین لائن پر بس چلا ئیں لیکن بس چلانا تو دور آج تک ایک رکشا بھی صوبائی حکومت نہیں چلا سکی۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وفاقی حکومت اور افواج پاکستان کے زریعے ہم کو اعتماد اور امید ہے کراچی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگا،،اس شہر کی بدقسمتی ہے کہ اس صوبے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آگئی، صوبائی حکومت کے جرائم کی تاریخ پر کسی کو پریشانی نہیں پیپلزپارٹی نے کوٹہ سسٹم کے نام پر سندھ کو شہری و دیہی میں تقسیم کردیا سندھ حکومت نے لسانی بنیادوں پر سندھ میں ایڈمنسٹریٹرکی تعیناتی نے لسانیت کو مزید ہوا دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب جب ایم کیو ایم پاکستان صوبے کی بات کرتی ہے تو اسے سندھ دھرتی کا غدارکہا جاتا ہے اگرصوبے کی بات کرنا غداری ہے تو آئین کو دیکھیں آئینی آپشن کو غداری کہنا آئین سے غداری ہے صوبے کو بھی ڈسٹرکٹ کی طرح آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہونا چاہئے اور پورے پاکستان میں صوبوں کا سب سے بڑاجائز مطالبہ سندھ کے شہری علاقوں میں موجود ہے، ایم کیو ایم پاکستان اور کراچی کے عوام بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کے ڈسٹرکٹ بناکر کہ کراچی تقسیم ہوگیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب جب مینڈیٹ ایم کیوایم پاکستان کو ملا لوگ اسی دور کو یاد کرتے ہیں ایم کیوایم کے مینڈیٹ کے دور کو ہی پورا پاکستان ترقی سے یاد کرتا ہے صوبے کو متحد رکھنے کیلئے اپنی نشستوں سے خالصتا سندھی بولنے والے بھائیوں کو جتوایا،کیا پیپلزپارٹی لاڑکانہ سے کبھی اردو بولنے والے کو جتواسکتی ہی ایم کیو ایم پاکستان نے بلا رنگ و نسل سیاست اور خدمت کو فروغ دیا ہے مہاجر نفرتوں کا جواب بھی ہمیشہ پیار سے دیتے آئے ہیں۔

سابق میئر کراچی و ڈپٹی کنوینر وسیم اختر نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس 4سالوں میں حکومت سندھ نے جو تنخواہ اور پینشن کی مد میں جو پیسے دئے وہ کلیئرکر کے سارے سامنے رکھے تقریبا سالانہ 11ارب روپے اس کے بعد جو ون ٹائم گرانٹ ملی حکومت سندھ کواسکی بھی تفصیل دی گئی پریس بریفنگ کے زریعے، اے ڈی پی میں 6ارب کا شارٹ فال ہے 4سالوں میں یہ تفصیل میں دے چکا ہوں اسے زیادہ زیادتی نہیں ہو سکتی جو ان چار سالوں میں حکومت سندھ نے کراچی کیساتھ کی۔

فیصل سبزواری نے میڈیا نمائندہ گان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی مصنوعی قسم کی جماعت فوٹو شاپ کر کہ یا غلط تاریخ ڈال کر کسی پر الزام لگائے تو اس کی تحقیقات کرلینی چاہئے جو یہ تصویر دکھاتے ہیں قائم علی شاہ کیساتھ دستخط کرتے ہوئے اس وقت ایم کیو ایم پاکستان 2012 میں پیپلز پارٹی کیساتھ صوبائی حکومت میں تھے اکتوبر2012میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ آیا سندھ اسمبلی سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان مل کر لائی جس پرفروری2013 میں دستخط ہوئے جو یہ تصویر دکھاتے ہیں قائم علی شاہ اور اس وقت کی ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کیساتھ فروری2013ہم حکومت سندھ سے نکلے ہیں پیپلز پارٹی نے اگلے روز جرنل ضیا کا1979کاقانون نافذکردیا اس وقت نثارکھوڑو قائم مقام گورنر تھے جو موجودہ سندھ کا لوکل گورمنٹ ایکٹ ہے،21 اگست 2013کو پیپلز پارٹی نے منظور کیا میں اسوقت اپوزیشن لیڈر تھا اور خواجہ اظہار الحسن میرے ڈپٹی تھے ہماری تقاریر اسمبلی کے رکورڈ میں موجود ہے کہ ہم نے اسکو اٹھا کر پھینک دیا تھا ایم کیو ایم پاکستان نے اسکو مسترد کیا اور جو پاکستان تحریک انصاف کے اس وقت 04ارکان صوبائی اسمبلی تھے انہوں نے اسکے حق میں ووٹ دیاتھا اورذمہ داری کیساتھ ایم کیو ایم پاکستان نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012کو مسترد کردیا تھا جس کو آپ گوگل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اعترازات کیوں ہیں سندھ حکومت اور انکی نیتوں پر گزشتہ12سالوں میں سوا 3لاکھ نوکریاں دی ہیں پیپلز پارٹی نے صوبے کو شہری سندھ کا انکے بانی کے لگائے ہوئے کوٹے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ کا حصہ بنتا ہے انہوں نے اپنے جن ڈپٹی کمشنرز کو ایڈمنسٹریٹر لگایا ہے انہی ڈپٹی کمشنرز نے جعلی ڈومیسائل بنائے ہیں سرکاری سرپرستی میں جس پر خواجہ اظہارالحسن کی پٹیشن موجود ہے ہائی کورٹ میں جس پر سب کو اختلاج قلب ہے کہ اس پٹیشن کی اگر کلیئرٹی آجائے تو ہمارا کیا بنے گا،کراچی اور شہری سند ھ کی پولیس اٹھا کر دیکھ لیں کہ کراچی کے کتنے نوجوان آپکو پولیس میں نظر آتا ہیں سب کے ڈومیسائل اٹھا کر دیکھ لیں یا سندھ سیکریٹریٹ چلے جائیں پتا چل جائیگا کہ کتنی شہری سندھ کو نوکریاں دی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسا وزیر اعلی جو کہ جعلی اکثریت کے زریعے صوبائی اسمبلی کو کنٹرول کر رہا ہے وہ جعلی کیوں ہے سندھ کی 60فیصد آبادی شہری سندھ میں لگتی ہے جسکو یہ مردم شماری میں نہیں گنتے اسکے بعد اسکے حصاب سے حلقہ بندیاں نہیں کرتے آپ اگر آج آپ کراچی،حیدر آباد، میرپور خاص،سکھر،نوابشاہ شہروں کو مردم شماری میں سہی گن لیں تو ہمارے بجائے پیپلز پارٹی نئے صوبے کا مطالبہ کرتی نظر آئیگی یہاں پر کیوں کہ انکی جعلی اکثریت جہاں پرختم ہوجائیگی وہ جعلی اکثریت کی بنیاد پر 34اسسٹنٹ کمشنرز تعینات کئے گئے جو سندھ کے شہری علاقوں کیساتھ نا انصافی ہے۔

خواجہ اظہار الحسن نے میڈیا نمائندہ گان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میئر کراچی پر الزام لگانے والے خود نیب میں پیشیاں دے رہے ہیں کرپشن کی اور جب جب میئر کراچی کو نشانا بنایا جاتا ہے تو یہ بلواسطہ پیپلز پارٹی کی حمایت کی جاتی ہے اور جب بھی ملک توڑنے والے کرپشن کرنے والوں کی جب بھی حمایت کی جائے تو سمجھ لیں میئر اور مہاجروں پر الزام لگایا جا رہا ہے سندھ کی دوسری بڑی اکائی ہے مہاجر کسی کو اچھا لگے یا برا لگے مہاجر ایک شناخت ہے کراچی آپریشن کے بعد ہم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کراچی میں ہماری کمیونٹی کے احساسات ومحرومی کو دور کرنے کیلئے حکومتیں اور ریاستی اداریں ہمارے یہ تحفظات دور کرینگے جس میں کراچی کی تعمیر و ترقی بھی تھی اس میں ہمارے جائز حقوق بھی تھے اور جائز حقوق میں ہمارے مالی حقوق بھی تھے ہمارے انتظامی حقوق بھی تھے لیکن کراچی آپریشن کی سختیاں برداشت کرلیں زیادتیاں برداشت کرلیں صعوبتیں لیکن اگر اسکے بعد ہماری کمیونٹی کو لاوارث چھوڑ دیا جائے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے اور ان سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے جائیں تو جو سندھ کے اندر احساس محرومی پیدا ہوگی اسکی ذمہ داری پھر سندھ کے حکمرانوں پر ہوگی۔

اس موقع پر ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم پاکستان کنور نوید جمیل،وسیم اختر،رکن رابطہ کمیٹی خواجہ اظہارالحسن،فیصل سبزواری،محمد حسین،عبدالقادر خانزادہ،زاہد منصوری،مسعود محمود،خالد سلطان،اسلم آفریدی بھی موجود تھے۔