رواں سال کے پہلے چار ماہ کے دوران 300موٹرسائیکل اور77مسروقہ گاڑیاں بر آمد کیں،

ڈکیتی لوٹ مار راہزنی اور کار و موٹرسائیکل چوری میں ملوث34 کریمنل گینگز ٹریس کرکے 115ملزمان گرفتار کیے، احسن یونس سی پی او راولپنڈی

Umer Jamshaid عمر جمشید ہفتہ 8 مئی 2021 16:03

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 8 مئی 2021ء،نمائندہ خصوصی،عمر جنجوعہ) سٹی پولیس آ فیسر محمد احسن یونس نے کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے چار ماہ کے دوران 300موٹرسائیکل اور77مسروقہ گاڑیاں بر آمد کیں،ڈکیتی لوٹ مار راہزنی اور کار و موٹرسائیکل چوری  میں ملوث34 کریمنل گینگز ٹریس کرکے 115ملزمان گرفتار کیے، راولپنڈی ایک ٹرانزٹ سٹی ہے،یہاں دیگر علاقوں سے ملزمان آکر وارداتیں کر کے غائب ہو جاتے ہیں، لوٹ مار کے مقدمات میں فوری و من و عن اندراج مقدمات کی پالیسی نے شہر کے کرائم اور گینگزکو واضح کیا،جس سے ان کیخلاف کارروائی ممکن ہوئی، رواں سال کا کرائم گذشتہ سالوں کے اسی دورانیہ میں 30 فیصد تک کم ہوا، قیام امن اور انصاف کی فراہمی کی راہ میں شہادتوں اور قربانیوں کی داستانیں رقم کر نے والے پولیس افسر اور اہلکار محکمہ کے ماتھے کا جھومر ہیں،سی پی او، اس مو قع پر ایس ایس پی انوسٹی گیشن محمد فیصل کامران بھی موجود تھے اعدادو شمار کے حوالے سے گفتگو کر تے ہو ئے سٹی پولیس آ فیسر محمد احسن یونس نے بتایاکہ تعیناتی کے بعد شہر کے کرائم کے تعین کے لئے سروے کرایا اور کرائم پاکٹس کا تعین کیا ساتھ ہی راولپنڈی میں فوری ایف آئی آر کا کلچر متعارف کرایا، جس سے یہاں کا اصل کرائم اور کریمنل سامنے آئے جس پر موثر کارروائی کرتے ہوئے 34 کریمنل گینگز کے 115 ملزمان گرفتار کرکے 278 مقدمات ٹریس کرتے ہوئے31 گاڑیاں، 23 موٹرسائیکل،56 لاکھ روپے سے زائد نقدی اور اسلحہ برآمد کیا گیا، انہوں نے مزید بتایاکہ قتل کے 70 مقدمات میں 118 افراد کو گرفتار کیا گیا، قتل معہ ڈکیتی کے 03 مقدمات میں 03 افراد گرفتار، ڈکیتی کے 23 مقدمات میں 19 افراد کو گرفتار کر کے 96000 روپے برآمد کیے گئے، رابری کے مقدمات میں 542 افراد کو گرفتار کر کے 74 لاکھ سے زیادہ نقدی برآمد کی گئی، جبکہ سنیچنگ کے مقدمات میں 305افراد کو گرفتار کرکے6393750روپے مالیت کی برآمدگی کی گئی،سٹی پولیس آفیسر محمد احسن یونس نے کہا کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے،یہی وجہ ہے کہ ایس پیز سطح کے افسران بھی خود پٹرولنگ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


    سٹی پولیس آفیسر محمد احسن یونس نے کہا کہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ فورس کی فلاح و بہود بھی میری ذمہ داری ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے میس کے نظام کو درست کیا اور پولیس لائن کے میس کو بڑے ہو ٹلوں کے انداز میں تیار کیا، معیاری اور انتہائی ارزاں کھانا روزانہ کی بنیاد پر فورس کو مہیا کیا،رہائشی بیرکس میں تمام بنیادی سہولیات فراہم کیں، تبادلوں، چھٹی اور اہلکاران کو درپیش مسائل کی بروقت انجام دہی اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیس ویلفیئر مرکز کا قیام عمل میں لایا جہاں اہلکاران اپنی درخواست دیکر چلے جاتے ہیں اور ویلفیئر مرکز میں تعینات خصوصی عملہ اہلکاران کے زیر التواء مسائل کے حل کو بروقت یقینی بناتا ہے،ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے،اس سبب سفارش اور اقربا پروری کے کلچر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔


     سٹی پولیس آفیسر محمد احسن یونس نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ویژن کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہری لگائی جاتی ہے، رواں سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران چار ہزار سے زائد سائلین کو براہ راست سنا اور موقع پرسینئر افسران سمیت ایس ایچ اوز، تفتیش افسران سے باز پرس کی گئی، کوتاہی مرتکب ہونے پر متعدد کو سزائیں دی گئیں،انصاف کی فراہمی میرامشن ہے اور اسکی راہ میں کو ئی رکاوٹ براداشت نہیں کی جائے گی،شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے اب تک روزانہ کی بنیاد پر 500سے زائد کھلی کچہریوں کا انعقاد ہو چکاہے، جس میں 18ہزار سے زائد شہریوں کو براہ راست سن کر ان کی داد رسی کی جا چکی ہے۔


    ایس ایس پی انوسٹی گیشن محمد فیصل نے کہا ہے کہ تفتیش کے نظام کو یکسر تبدیل کیااور اس نئے ماڈل کو پسند کر تے ہو ئے آئی جی پنجاب نے لاہور سمیت صوبہ بھر میں بھی نافذ العمل کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اب درخواست ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کسی تفتیشی آفیسر کے پاس نہیں جاسکتی ہے، میرٹ، ایس او پی اور نمبر کی بنیاد پرتفتیشی آفیسر کو مارک ہو تی ہے، مقدمات کے چالان کی تیاری ایک خاص ماڈیول کے تحت ہو تی ہے، سنگین نوعیت کے مقدمات کی سماعت سے قبل کیس کا ریویو لیا جاتا ہے تفتیشی آفیسر اور لیگل برانچ مل کر ٹیم کی شکل میں کیس کے لیے تیاری کرتے ہیں،اور اس امر کو یقینی بنایا جا تا ہے کہ تفتیشی نقائص کو دور کر کے ملزمان کوسخت سے سخت سزا دلوائی جائے اس کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو سابقہ مقدمات کی نسبت موجودہ مقدمات میں ملزمان کو عدالتوں سے بھاری سزائیں ہوئیں،تفتیشی افسران کو تفتیشی فنڈکی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے خاص طور پر مانیٹر کیا جا رہا ہے اور اب تک 02کروڑ روپے سے زائد کی رقم بذریعہ چیک تفتیشی افسران کو دی جا چکی ہے۔