بلوچستان حکومت نے سندھ کی جانب سے ارسا معاہدے کے تحت پانی کا حصہ نہ دینے پر احتجاج کرتے ہوئے دھمکی دیدی

جمعہ 11 جون 2021 19:16

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2021ء) بلوچستان حکومت نے سندھ کی جانب سے ارسا معاہدے کے تحت پانی کا حصہ نہ دینے پر احتجاج کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں حب ڈیم سے سندھ کے دار الحکومت کراچی کو پانی کی فراہمی بند کر دی جائے گی۔صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے نگراں ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے بلوچستان کی شکایت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ارسا بلوچستان کو پورا پانی دے رہا ہے مگر سندھ اس میں سے 50 سے 55 فیصد کمی کررہا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کوئٹہ میں صحافیوں کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ بلوچستان نہری نظام کے آخری حصے پر واقع ہے اس لیے اسے دریاں کا پانی سندھ کے راستے گڈو اور سکھر بیراج سے پٹ فیڈر اور کیرتھیر کینال کے ذریعے ملتا ہے۔

(جاری ہے)

ارسا کے 1991 کے معاہدے کے تحت پانی کی قلت کے باوجود بلوچستان اور خیبر پختونخوا پانی کی کٹوتی سے مستثنی ہیں مگر سندھ اس پر عملدرآمد نہیں کر رہا اور پانی کی قلت کا اپنا بوجھ بھی بلوچستان پر ڈال رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ارسا کی جانب سے گزشتہ ہفتے بتایا گیا تھا کہ دریاں میں 23 ہزار کیوسک اضافی پانی چھوڑا جارہا ہے جس سے صوبوں کا شیئر بڑھ جائے گا مگر اس کے باوجود بلوچستان کو پانی کی 55 فیصد قلت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ سندھ سے بلوچستان کو اپنے حصے سے 34 سے 38 فیصد اور رواں ماہ 44 فیصد کم پانی مل رہا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت اپنے حصے سے کم پانی ملنے پر پنجاب حکومت اور ارسا سے احتجاج کر رہی ہے مگر وہ خود بلوچستان کے حصے کے پانی پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔

آبی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ اس سال سردیوں میں بارشیں کم ہونے کی وجہ سے دریاں میں پانی کی کمی ہیجبکہ شمالی علاقہ جات میں گلیشیر نہ پگھلنا بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے تربیلا اور منگلا ڈیم میں بھی پانی کی سطح انتہائی گر گئی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق اکتوبر 2020 سے مئی 2021 کے دوران ملک میں میں معمول سے 36 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔

سندھ میں 64 اور بلوچستان میں 59 فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کا کہنا ہے کہ ارسا نے ابتدا میں خریف کے سیزن میں پانی کی کمی کا اندازا دس فیصد لگایا تھا مگر کمی 20 فیصد سے زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے حصے میں کمی کی گئی ہے۔پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ کے کئی اضلاع میں احتجاج کیا گیا۔

سندھ حکومت نے وفاقی حکومت اور ارسا پر پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا الزام لگایا۔ سندھ حکومت کے وزیر اطلاعا ت ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ پانی کی تقسیم منصفانہ طور پر نہیں ہورہی ۔ پیپلز پارٹی کو 1991 کے معاہدے پر اعتراضات ہیں مگراسی معاہدے کے تحت پانی کی قلت کا بوجھ بھی آپس میں تقسیم نہیں کیا گیا۔ ہمارے پاس پانی کی قلت 50 فیصد باقی جگہوں پر 40 فیصد اور 15 فیصد ہے۔

سندھ کے کچھ اضلاع میں پینے کا پانی کا بھی مسئلہ بن گیا ہے۔ آبی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ ارسا معاہدے میں جھول موجود ہے کیونکہ پانی کی تقسیم کا فارمولہ 114 ملین ایکڑ فٹ کا تخمینہ لگا کر طے کیا گیا ہے جبکہ سسٹم میں 104 ملین ایکڑ سے زیادہ پانی آتا ہی نہیں ہے۔ اس دس ملین ایکڑ فٹ کی کمی پر جھگڑا ہمیشہ ہوتا ہے مگر جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو یہ جھگڑے زیادہ ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے کو انتظامی طور پر حل کرنے کی کوششوں کی بجائے اس پر سیاست زیادہ کی جاتی ہے۔محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ جون میں معمول کے مطابق بارشیں متوقع ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے شمالی علاقہ جات میں گلیشئر کے پگھلنے سے اپر انڈس بیسن میں پانی کے بہا میں اضافہ ہوگا۔ارساکے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کے مطابق موسم کے باعث صورتحال میں بہتری آرہی ہے۔

پانی کی قلت پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ جمعرات سے تمام صوبوں کو طلب کے مطابق پانی کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ کا ارسا کے ساتھ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور انہیں پورا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری عبدالرحمان بازئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں صرف ایک ہی زرعی بیلٹ سندھ سے ملحقہ نصیرآباد ڈویژن ہے، جہاں زراعت کے لیے سندھ سے آنے والے والے پانی پر انحصار کیا جاتا ہے۔

تاہم سندھ کی جانب سے کبھی بلوچستان کو اس کے حصے کا مکمل پانی فراہم نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ نصیرآباد ڈویژن میں جون میں چاول کی فصل اگائی جاتی ہے مگر پانی نہ ہونے کی وجہ سے زمیندار فارغ اور پریشان بیٹھے ہیں۔ اس سے پہلے پانی نہ ملنے کی وجہ سے گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی تھی۔ ترجمان حکومت بلوچستان کے مطابق نصیرآباد ڈویژن میں فصلوں کے لیے تو دور پینے کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا۔

پانی نہ ملنے کی وجہ سے خریف کیسیزن میں سات لاکھ ایکڑ کی بجائے اس سال بمشکل ایک سے دو لاکھ ایکڑ اراضی پر ہی کاشت ممکن ہوسکے گی۔ اس سے بلوچستان کی زراعت اور معیشت تباہ ہوجائے گی۔ صوبے کے کسان اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں۔ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا حصہ 0.278 ملین ایکڑ فٹ ہے مگر اسے صرف 0.094ملین ایکڑ فٹ پانی مل رہا ہے ۔

انہوں نے مزید تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہفتے کے اعداد و شمار کے مطابق پٹ فیڈر کینال میں سند ھ کی جانب سے بلوچستان کی طرف 44 فیصد اور کیرتھیر کینال میں 42 فیصد کم پانی چھوڑا جارہا ہے۔ارسا کے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کے مطابق یہ درست ہے کہ سندھ بلوچستان کا 50 سے 55 فیصد پانی روک رہا ہے۔ بلوچستان کی جانب سے ہمیں شکایات موصول ہوتی ہے، ہم نے اس سلسلے میں سندھ حکومت کو بارہا مراسلے لکھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ارسا بلوچستان کے لیے سندھ کو پورا پانی دے رہا مگر سندھ آگے بلوچستان کو نہیں دے رہا۔ بلوچستان کو یومیہ 9600 کیوسک ملنا چاہیے مگر سندھ انہیں 4446 کیوسک کٹوتی کرکے صرف 5154 کیوسک پانی دے رہا ہے۔لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال بلوچستان کے وزیر آبپاشی طارق مگسی نے سندھ کے وزیراعلی مراد علی شاہ کے سامنے معاملہ اٹھایا توانہوں نے افسوسناک رویہ اپنایا اور واضح طور پر کہا کہ وہ ارسا کے قوانین کو نہیں مانتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 15 جون کو سیزن کا پیک ہوتا ہے اگر تب تک پانی کی قلت سے سے متعلق بلوچستان کی شکایات کا ازانہ نہ کیا گیا تو بلوچستان حکومت مجبورا حب ڈیم سے کراچی کو پانی کی فراہمی بند کردے گی۔ یہ معاملہ واپڈا کے ساتھ بھی اٹھایا جائیگا۔خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں 24 ہزار ایکڑ رقبے پر واقع حب ڈیم سے کراچی کو یومیہ تقریبا 10 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے جس سے کراچی کی 20 سے 25 فیصد پانی کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔اردونیوز نے بلوچستان حکومت کے الزام سے متعلق سندھ حکومت کا مقف جاننے کیلئے سندھ کے وزیر آبپاشی سہیل انور سیال سے رابطہ کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔