سپریم کورٹ،شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

میرے موکل کیخلاف کاروائی کا فیصلہ ہوگیا تھا تو انکوائری ضروری تھی، وکیل انکوائری تو تب ہوتی جب تسلیم شدہ حقائق نہ ہوتے، جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس

جمعہ 11 جون 2021 22:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2021ء) سپریم کورٹن نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرفین جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔ن جمعہ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ مزکورہ بالا اپیل پر سماعت کی۔ندوران سماعت شوکت صدیقی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اگر میرے موکل کیخلاف کاروائی کا فیصلہ ہوگیا تھا تو انکوائری ضروری تھی۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انکوائری تو تب ہوتی جب تسلیم شدہ حقائق نہ ہوتے،شوکت عزیز صدیقی نے پبلک میں قومی اداروں پر الزامات لگائے،جب پبلک میں اپنا بغض نکال چکے تھے تو اس کے بعد انکوائری کی ضرورت نہیں تھی،تقریر کرنے سے پہلے شوکت عزیز صدیقی کو چیف جسٹس پاکستان کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔

(جاری ہے)

دوران سماعت حامد خان نے موقف اپنایا کہن یہ ریفرنس صدر مملکت نے نہیں بھیجا تھا کونسل نے خود نوٹس لیا،سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹسز اور ان کے جوابات کی بنیاد پر میرے موکلن کو برطرف کیا ،وکیل حامد خان نین جسٹس قاضی فائز عیسی صدارتی ریفرنس کا حوالہ بھی دیا۔

نجس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ازخود نوٹس نہیں لیا شکایت موصول ہونے پر کاروائی کی،دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وقت قلیل ہے اتنی تفصیل میں مت جائیں،اس تقریر کا ہونا اس کا متن، اس کے حقائق سب تسلیم شدہ ہیں،آپ نے لوگوں کے بارے میں شکایتیں کرنے کیلئے پبلک فورم چنا،ہم نے ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے،اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا،ادارے پر حملے کی صورت میں شکایت کیلئے اندرونی طریقہ کار موجود تھا، یہ نئی روش شروع ہوئی ہے کہ سب کچھ پبلک کر دیں،جسٹس سجاد علی شاہ بولے کہ یہ مان بھی لیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو کہا سچ تھا تو کیا انھیں عدلیہ کے اندر معاملہ حل نہیں کرنا چاہئے تھا،شوکت عزیز صدیقی کو ایسے معاملے پر خود توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہئے تھا۔

جس پر حامد خان نے موقف اپنایا کہ جب معاملہ چیف جسٹس صاحبان کے علم میں آیا تو انھوں نے بھی توہین عدالت کا نوٹس نہیں کیا،شوکت عزیز صدیقی کیخلاف جو کرنا ہے کریں،شوکت صدیقی نے تقریر میں جن کا نام لیا ان سے بھی پوچھا جائے۔ناس دورانن جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس کو رپورٹ بھیجتے تو وہ اس پر ایکشن لیتے،شوکت عزیز صدیقی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

دوران سماعت جسٹس اعجازلاحسن نے وکیل درخواستگزار سے استفسار کیا کہ آپ صرف دو سوالوں کا جواب دیں،کیا یہ تقریر جج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھی یا نہیں،ہمیں یہ بھی سمجھا دیں کہ کونسل تقرر کے بعد ثبوت کیوں مانگتی،جس پر حامد خانن نے موقف اپنایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اوپن ٹرائل کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی، جج کی مدت ملازمت کے تحفط کے لیے بہت سے طریقے کار دیے گئے ہیں،ناس موقع پر جسٹس اعجازلاحسنن بولے آئین میں کسی جج کو وزیر اعظم یا پارلیمنٹ فارغ نہیں کر سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل جج کی مدت ملازمت کے تحفظ کے لیے ہے،کیا آپ نہیں سمجھتے کہ تقریر سے پہلے چیف جسٹس کو اپنے تحفظات اور خدشات سے آگاہ کرنا چاہیے تھا دوران سماعت شوکت عزیز صدیقی نین جواب دینے کیلئے اجازت چاہی تو عدالت کی جانب سین انہیں اپنے وکیل کے زریعے جواب دینے کی ہدایت کی گئی۔

اس دورانن وکیل حامد خان نے کہا کہ چیف جسٹس کو خط لکھا تھا جس کی کاپی ریکارڈ پر موجود ہے،شوکت عزیز صدیقی صاحب بتا رہے ہیں تقریر سے قبل چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کیلئے انہوں نین چار مرتبہ رابطہ کیا مگر اپائٹمنٹ نہیں دی گئی،نتحریری رپورٹ ہماری اضافی درخواست میں موجود ہے،جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل درخوست گزرا کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہنوہ خط آپ نے تقریر کے بعد لکھا،آپ چاہتے ہیں کہ اس اسٹیج پر نوٹس لیں، ایسا ہے تو ہم یہ بھی کر لیں گے مگر جو آپ نے کیا اس کے اور بھی کئی پہلو ہیں جن کا آپکو سامنا کرنا ہو گا،اگر مداخلت کی بات ہے تو عدلیہ کی آزادی کے کئی اور پہلو بھی ہیں،اگر ایک جج غلط کرتا ہے تو پوری عدلیہ کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے،شوکت عزیز صدیقی کا مداخلت پر پبلک فورم کا استعمال غلط تھا،شوکت عزیز صدیقی خاموشی سے انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں سے ملتے رہے۔

ناس دوران وکیل حامد خان نے موقف اپنایا کہ شوکت عزیز صدیقی کیساتھ جو ہو رہا تھا انھوں نے عوام میں بتا کر جرات کا مظاہرہ کیا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ عوامنکو بتانا جرات نہیں ہتھیار پھینکنا ہے۔ اس دوران وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے اجازت ملنی چاہئے تھی کہ تقریر کا مقصد بتاتا،میری تقریر کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنا نہیں نظام کو بہتر کرنا تھا،سپریم جوڈیشل کونسل کو خطرہ تھا کہ اگر انکوائری شروع ہوئی تو میرا موکل جرنیلوں کو بلانے کا کہے گا، اسی خطرے سے بچنے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل نے میرے خلاف ایسی باتیں کیں۔

اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہنہمیں 30 جون کا خیال ہے آرڈر کر رہے ہیں کہ جیسے ہی بنچ دستیاب ہوگا مقدمہ سماعت کیلئے مقرر کیا جائے، بعد ازاں عدالت نے معاملہ پر سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی ہے۔۔۔۔توصیف