میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی کابینہ اور حکومت کا مزید حصہ رہوں، سردار یارمحمد رند

مجھے یا میرے خاندان کو کچھ ہوا تو اسکی ذمہ داری وزیراعلیٰ جام کمال خان پر عائد ہوگی ہم اس دھرتی میں پیدا ہوئے اور موت برحق ہے ہمیں کوئی ڈرائے نہیں منتخب ہوا تو ٹھیک ہے نہیں ہوئے تب بھی یہیں رہیں گے مفادات کی خاطر اپنی غیر نہیں بیچیں گے،کابینہ سے استعفیٰ دے رہا ہوں ، پارلیمانی لیڈر پاکستان تحریک انصاف

بدھ 23 جون 2021 23:56

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جون2021ء) پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر تعلیم سردار یارمحمد رند نے کہا ہے کہ میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی کابینہ اور حکومت کا مزید حصہ رہوں، مجھے یا میرے خاندان کو کچھ ہوا تو اسکی ذمہ داری وزیراعلیٰ جام کمال خان پر عائد ہوگی ہم اس دھرتی میں پیدا ہوئے اور موت برحق ہے ہمیں کوئی ڈرائے نہیں منتخب ہوا تو ٹھیک ہے نہیں ہوئے تب بھی یہیں رہیں گے مفادات کی خاطر اپنی غیر نہیں بیچیں گے، تاریخ گواہ رہے گی کہ جب صوبے کی بربادی ہورہی تھی تو میں اسکا حصہ نہیں بنا حکومت کے اچھے کاموں میں ساتھ جبکہ غلط کاموں کے سامنے کھڑاہونگا، ایوان سے نکل کر اپنا استعفیٰ گورنر کو بھیج دونگا مجھے جام کمال خان کی حکومت یا انکی کابینہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

یہ بات انہوں نے بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر اظہار خیال کے دوران کہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کہا کہ 18جون کو جو واقعہ اسمبلی میں پیش آیا غلطی اپوزیشن کی ہو یا حکومت کی اگر اس مسئلے کو پہلے بات چیت کے ذریعے حل کردیا جاتا تو اس طرح نہ ہوتا ۔ ہمیشہ بلوچستان اسمبلی کا ذکر کرکے ہم فخر محسوس کرتے تھے مگر جب جبر حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا انہوںنے کہا کہ جمہوری اداروں میںصرف جمہوریت کا راگ الاپنے سے جمہوریت نہیں آتی بلکہ جمہوری اقدار پر عملدرآمد ضروری ہوتا ہے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی سوچ یا ان کی معلومات یہ تھیں کہ ان کے حلقوں اور مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے یہ شکایت ہمیں بھی تھی مگر ہم زیادتی اور جبر کے عادی ہوچکے ہیں اس لئے ہم نے اس طرح آواز نہیں اٹھائی جس طرح آواز اٹھانی چاہئے تھی ۔

پاکستان تحریک انصاف بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہے ہم نے ان پر اعتماد کیا اور تین سال تک ان کے ساتھ چلتے رہے ہیں انہوںنے کہا کہ اپوزیشن کا کیا شکوہ کروں میں نے ایک ایک ضلع کا پیپر ورک کرکے فائل ٹیبل کی مگر اتحادی ہونے کے باوجود ہمیں محروم رکھا گیا آج اس ایوان میں وزیراعلیٰ کو موجودہونا چاہئے تھا وزیر خزانہ ہمارے فیصلے نہیں کرسکتے نہ ہی وہ ہمارے مسائل حل کرسکتے ہیں مگر افسو س کہ ایوان خالی ہے کیا الیکشن اور جمہوریت اس کا نام ہے کہ آج پورا ایوان خالی ہے انہوںنے کہا کہ بجٹ میں جن کو چند روپے زیادہ ملے ہیں انہوںنے تعریفوں کے پل باندھ دیئے ہیں آیا دیگر حلقوں کے لوگ اس صوبے کے لوگ نہیں میں نو مرتبہ پارلیمنٹ کا رکن رہا ہوں مگر اس کے باوجود اپنے حلقے کے سو فیصد ضروریات کو پورا نہیں کرپایا کیونکہ ہر دفعہ میرے ساتھ زیادتی و ناانصافی ہوئی انہوںنے کہا کہ 2020-21ء کے بجٹ میں لسبیلہ ، ظہور بلیدی ، نوابزادہ طارق مگسی کے منصوبوں اور میرے حلقے کے منصوبوں کا موازنہ کیا جائے میرے ساتھ یہ بھی ہوا کہ میرے پورے حلقے کو دو پولنگ سٹیشن میں تقسیم کیا گیا تاکہ لوگ ووٹ کاسٹ نہ کرسکیں میرے بہت سے ووٹر ز کو جی تھری کے بٹوں سے زخمی کیاگیا اب ہمیں سوچنا پڑے گا اور لوگوں کو حکمران منتخب کرنے کا حق دینا ہوگا ایسا نہیں کیا تو ملک کا نظام اور جمہوریت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہوپائے گا۔

انہوںنے کہا کہ میرا حلقہ کوئٹہ شہر سے شروع ہوتا ہے اور شہداد کوٹ کے ساتھ جا کر لگتا ہے یہاں کچھ دوستوںنے کہا کہ فٹسال گرائونڈز بنائے گئے ہیں ہسپتال بنائے جارہے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ میرے حلقے میں کتنے گرائونڈز بنے کتنے ہسپتال بنے ہیں دوران زچگی میرے حلقے کی خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتی ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ بجٹ میں تمام حلقوں کے لئے یکساں وسائل رکھے گئے ہیں مگر لسبیلہ کے لئی12ارب روپے دیئے گئے اور میرے حلقے کے لئے دو ارب سے بھی کم رکھے گئے ہیں تین برسوں کے دوران میرے حلقے کے لئے منصوبوں کا اعلان تو ہوتا رہا مگر ان کے لئے فنڈز کتنے مختص ہوئے اور کتنی رقم کا اجراء ہوا اس طرح تو یہ جام محمد کے دور حکومت میں جا کر یہ منصوبے مکمل ہوں ۔

مجھے اس لئے سزا دی جارہی ہے کیونکہ مجھ سے یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہوں ۔موجودہ حکومت میں14ماہ وزیر رہا ہوں مجھے پی اینڈ ڈی کے علاوہ تمام محکموں کی آفر کی گئی لیکن میں نے تعلیم کی وزارت کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ میں بلوچستان سے جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا میں نے چیلنج سمجھ کر وزارت تعلیم کا قلمدان لیا جب میں نے وزارت کا قلمدان لیا تو اس سے پہلے سی ٹی ایس پی کے تحت پانچ ہزار افراد کی تعیناتیاں ہوئی تھیں جس میں کرپشن کے ثبوت تھے دو سے تین مرتبہ میںنے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ ان اسامیوں پر دوبارہ ٹیسٹ کرائے جائیں انہوںنے کہا کہ میں نے ٹیچنگ سٹاف کی تعیناتی میں کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ اساتذہ کو بااختیار بنایا ۔

بدقسمتی سے میرے آنے سے پہلے محکمے میں کلسٹر سسٹم متعارف کرایا جاچکا تھا اور اس کلسٹر سسٹم سے بھی آج پیسے مانگنے شروع کئے گئے ہیں جب سے میںوزیربنا ہوںمیں ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کرسکتا جو فائل میں بھیجتا اس پر اعتراض لگا کر اسے واپس میرے پاس بھیج دیا جاتا سالہا سال سے محکمے میں لوگوں کے پروموشن رکے ہوئے تھے میں نے پی اینڈ ڈی ، فنانس کی منتیں کرکے پروموشن کرائے ۔

سکول آف ایکسی لینس کے نام سے ہم33اضلاع میں تعلیمی اداروں کے قیام سے متعلق نیا منصوبہ متعارف کرانا چاہتے تھے جس پر ہم نے مشاورت بھی کی اور جس سے بھی مشاورت کی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا سات اضلاع میں گرلز کیڈٹ کالج بنانا چاہتے تھے گوادر میں ریذیڈنشل کالج کا منصوبہ تھا وزیراعلیٰ نے بھی اس منصوبے کی تعریف کی مگر جب میںنے اپنی 14مہینوں کی کارکردگی کے حوالے سے میڈیا اور عوام کو آگاہ کیا تو میرا یہ عمل لوگوں کو اتنا برا لگا کہ اس پراجیکٹ کو گزشتہ سال سے روکے رکھا گیا ہے اور اس سال بجٹ میں اعتراض اٹھاتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں صرف ایک ہائی سکول بنایا جائے انہوںنے کہا کہ یہ وہ مثال ہے کہ ایک ٹیم کا کپتان جوخود گول نہیں کرپائے اور دوسرے کھلاڑیوں کو بھی کہے کہ انہیں بھی گول کرنے کا حق حاصل نہیں ۔

انہوںنے کہا کہ رئیسانی صاحب کے دور حکومت میں 127کروڑ روپے میرے مخالفین میں تقسیم کئے گئے کمیونٹی کے نام پر لوگوں کو عالیشان گھر بنا کر دیئے گئے اسمبلی اس حوالے سے انکوائری کرائے ۔ انہوںنے کہا کہ پہلے تو یہاں پشتون اور بلوچ کے نام پر لڑایا گیا پھر بلوچ اور براہوئی کے نام پر اور اس پر بھی انہیں تسکین نہیں ہوئی تو اب کچھی او رنصیرآباد ڈویژن میں بلوچ اور سندھی کے نام پر لوگوں کو لڑایا جارہا ہے انہوںنے کہا کہ کچھی کے اندر 90فیصد فنڈز جرائم پیشہ افراد کو نوازنے کے لئے رکھے گئے ہیں میرے حلقے میں غیر مقامی ڈپٹی کمشنر اور انتظامی افسران کو تعینات کیا گیا جو میری تیارفصل کو کاٹ کر لے گئے انہوںنے کہا کہ چیک پوسٹوں پر میرے مخالفین کو بٹھایاگیا ہے اگر مجھے یا میرے خاندان کو کوئی نقصان پہنچاتو اس کے ذمہ دار جام کمال خان ولد جام یوسف ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ موت برحق ہے کوئی ہمیں نہ ڈرائے منتخب ہوئے تو بھی ٹھیک نہ ہوئے تو گھر بیٹھ جائیں گے مگر بلوچستان کے مفادات کا سودا نہیں کریں گے یہ ایوان گواہ رہے کہ جب بلوچستان کی بربادی کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں میں شامل نہیں ہوں گا ۔انہوںنے کہا کہ جام کمال خان نے کہا ہے کہ سردار یار محمد رند اگرکابینہ سے نکلنا چاہیں تو چلے جائیں ہم نہیں روکیں گے میرے نزدیک اس کابینہ کی کوئی اوقات نہیں یہاں شامل لوگوں کو ان کا ضمیر چند ٹکوں کے لئے روکتا ہے انہوںنے وزارت سے استعفیٰ دینے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میرا ضمیر مجھے اس بات کی مزید اجازت نہیں دیتا کہ جام کمال کی کابینہ میں شامل رہوں لہٰذا استعفیٰ دیتا ہوں آج ہی اپنا استعفیٰ گورنر کو ارسال کردوںگا ۔

انہوںنے کہا کہ حکومت جہاں درست کام کرے گی میں ساتھ رہوں گا اور جہاں بلوچستان کے لوگوں کے حقوق بیچیں گے وہاں سب سے بڑی رکاوٹ سردار یار محمد رند ہوگا ۔