ناراض سیاستدانوں سے مذاکرات کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنا بہت ضروری ہے،علائوالدین مری

بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے اعلان ہوتے ہیںمکمل نہیں ہوتے،ان کو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سے مکمل کیا جائے

اتوار 18 جولائی 2021 17:45

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جولائی2021ء) حکومت بلوچستان کے ناراض سیاستدانوں سے مذاکرات کرنے کے بجائے اگر صوبہ کے عوام کے بنیادی مسائل جن میں غربت، مہنگائی،بے روزگاری،تعلیم و علاج معالعجہ کی سہولتیں، بجلی و گیس کی فراہمی، پینے کے صاف پانی کی دستیابی اور سماجی انصاف فراہم کرنے پر توجہ دی جائے تو پھر ناراض لوگوں سے بات کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

پاکستان ہم سب کا گھر ہے ،ایک گھر میں رہنے والے افراد کی ایک دوسرے سے ناراضی ہونا عام سی بات ہے لیکن گھر قائم رکھنے پر سب متفق رہتے ہیں اس لیے جن ناراض سیاستدانوں سے حکومت نے بات چیت کرنی ہے ان کو پہلے اپنے وطن سے محبت کا اعلان کرنا چاہیے،اختلافات بات چیت کے ذریعے ہی ختم کیے جاسکتے ہیں بندوق اٹھاکر ہر گز نہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار ممتاز سیاستداں اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلی علاوالدین مری نے یہاں بلوچستان اکنامک فورم کے دفتر میں سینئر صحافی سمیع گوہر سے ایک انٹرویو کے دوران کیا ۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہمارا صوبہ قدررتی وسائل سے مالا مال ہے،یہاں سونا،چاندی،تانبا، لوہا، کوئیلہ ، سنگ مرمر اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے جن سے فائیدہ اٹھاکر ملک می ترقی و خوشحالی کو بلند ترین سطح پر پہنچایا جاسکتا ہے لیکن ہماری بدقستی یہ ہے کہ یہاں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان تو ہوتا ہے لیکن ان پر کام شروع نہیں کیا جاتا ہے،صرف منصوبوں کے افتتاح کی تختیاں لگتی رہتی ہیں ۔

انہوں نے خہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام زیر تکمیل پروگراموں کی فائیلوں کو کھول کر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے تاکہ ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکے۔ علاوالدین مری نے کہا کہ چاغی میں موجود ونڈ کوریڈور سے بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، ساحلی پٹی کو فشریز، سیاحت اور سی فوڈ انڈسٹری کو فروغ دے کر فائیدہ اٹھایا جاسکتا ہے،ایران اور افغانستان کے ساتھ ٹریڈ پالیسی پر نظر ثانی کی جانی چاہیے جس سے برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور زرعی اصلاحات کے ذریعے کم پانی لینے والی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں جنکے ذریعے خام مال اور ویلیوایڈڈ پراڈکٹس کو برآمد کرکے خطیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے احساس محرومی کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہرگز نہیں ہے اس کے ذمہ دار خود ہمارے سیاستداں ہیں جو اقتدار میں نہیں ہوتے ہیں تو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بڑے بلندو بانگ دعوے کرتے ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو کچھ نہیں کرتے ہیں اور ترقیاتی پروگراموں کا بجٹ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فوج بلوچستان میں سیکورٹی کے حالت بہتر بنانے کے لیے بڑی محنت کررہی ہے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہی ہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہماری فوج کوئی رکاوٹ نہیں ہے جس کی وہ خود مشال پیش کرسکتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو فوج کے کسی بھی افسر نے انہیں کوئی کام شروع کرنے یا نہ کرنے کا کبھی دباو نہیں ڈالا بلکہ ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کیا۔