افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس

بھارت کی زیرصدارت کل ہونے والے اجلاس میں افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت اور متعدد اضلاع پر جنگجوﺅں کے قبضے سے متعلق غور کیا جائے گا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 5 اگست 2021 15:15

افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 اگست ۔2021 ) افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بھارت کی زیرصدارت کل جمعہ کے روز ہوگا اجلاس میں افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت اور متعدد اضلاع پر جنگجوﺅں کے قبضے سے متعلق غور کیا جائے گا. اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی اس کی سربراہی کریں گے افغان حکومت نے دو دن قبل سلامتی کونسل سے افغانستان پر ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا.

(جاری ہے)

بیس سالہ جنگ کے دوران خاموش تماشائی کا کردار اداکرنے والی اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں جاری کیے گئے بیان میںافغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں پر ”شدید تشویش“کا اظہار کیا تھا بیان میں کہا گیا تھا کہ سلامتی کونسل افغانستان میں تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے. پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول کو تسلیم نہیں کرے گا دوسری جانب افغان صوبہ ہلمند میں افغان فورسز اور طالبان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں افغان حکام نے لشکرگاہ اورمغربی شہر ہرات سے طالبان کو پسپا کرنے کا دعویٰ کیا ہے .

گزشتہ رات سے طالبان کے کئی ٹھکانوں پر جنگی جہازوں سے بمباری کی جا رہی ہے بتایا گیا ہے اس فضائی آپریشن میں امریکا کے علاوہ بھارتی فضائیہ بھی حصہ لے رہی ہے تاہم فضائی حملوں کے باوجود افغان طالبان کی جانب سے پیش قدمی جاری ہے اور امریکی محکمہ دفاع کی اپنی رپورٹس کے مطابق طالبان چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں اقتدار پر قبضہ کرسکتے ہیں . امریکا اور بھارت کی جانب سے فضائی حملوں کے جواب میں طالبان کی جانب سے دونوں ملکوں کی افغانستان میں موجود فوجی وغیرفوجی تنصیبات کو راکٹ حملوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے واضح رہے کہ افغانستان ملک کی سرحدوں پر موجود چوکیوں پر قبضہ کرچکے ہیں طالبان کی جانب سے ملک کے اسی فیصد سے زائد علاقے پر قبضے کا دعوی بھی سامنے آیا ہے جبکہ کابل کی اشرف غنی حکومت کے لیے سب سے بڑا دھچکا افغان نیشنل آرمی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد کا فوجی سازوسامان سمیت طالبان سے جاکر مل جانا ہے.