ڈگمگاتی معیشت کے ساتھ پاکستان امریکی پابندیاں برادشت کرپائے گا؟

بدقسمتی سے پاکستانی قیادت میں قوت فیصلہ کی ہمیشہ کمی رہی ہم نے دوسرے ملکوں پرانحصار کیا ہے‘زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم خوراک اور ڈیری مصنوعات درآمد کرنے پر مجبور ہیں.ایڈیٹر اردوپوائنٹ میاں محمد ندیم کا تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 15 ستمبر 2021 11:12

ڈگمگاتی معیشت کے ساتھ پاکستان امریکی پابندیاں برادشت کرپائے گا؟
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 ستمبر ۔2021 ) امریکہ نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی مدد کرنے والے ملک کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کا درجہ کم کرنے پر غور کررہا ہے جبکہ امریکی وزیرخارجہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ازسرنوجائزہ لینے کا وقت آگیا ہے . افغانستان میں بیس جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد امریکا اپنی ہار کے لیے کسی تیسرے فریق کو ذمہ دار ٹہرانا چاہ رہا ہے اور سلسلہ میں پاکستان کا نام آرہا ہے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسدمجیدخان کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی سب سے زیادہ درآمدات امریکا کے ساتھ ہیں اور پاکستان میں ترسیلات زرمیں بھی امریکا تیسرے نمبر پر آتا ہے.

(جاری ہے)

اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ممکن ہے کہ وہ سعادت مند برخوار کی طرح ایک بار پھر تمام تر ذمہ داریاں اپنے سر لے کر پابندیوں کے لیے اپنی گردن پیش کردے ؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی کی اقتصادی صورتحال پہلے ہی سخت مشکلات سے دوچار ہے اور وزارت خزانہ میں بار بار تبدیلیوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑرہا تو ایسی صورت میں پاکستان کا سب سے بڑا درآمدکندہ ملک اگر اس پر پابندیاں عائدکرتا ہے تو نہ صرف ملک میں روپے کی قدرمیں مزیدکمی اور ڈالر کی قدرمیں ہونے والے اضافے سے کساد بازاری اور بڑھے گی.

ایڈیٹر”اردوپوائنٹ “میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستانی قیادت میں قوت فیصلہ کی ہمیشہ کمی رہی ہم نے دوسرے ملکوں پر ا نحصار کیا ہے اورخود انحصاری صرف نعروں اور دعووں تک محدود رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم خوراک اور ڈیری مصنوعات تک کے لیے دوسروں کے محتاج ہوچکے ہیں حالانکہ یہ مصنوعات کبھی ہماری برآمدات میں ہواکرتی تھی آج وہ درآمدات میں فہرست میں آچکی ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟.

انہوں نے کہا کہ کیا پاکستان کے لیے بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اپنے غلطیوں کو سدھارے اورڈیڑھ دو سو سال پرانے کالونیل عہد کے قوانین اور پالیسیوں سے جان چھڑوا کرملکی مفاد میں فیصلے کرئے؟انہوں نے کہا کہ ہمارے قومی لیڈروں کو بھی قوم سے سچ بولنا چاہیے جو تہتر سالوں سے جھوٹ کا سہارا لیتے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومتوں کے اجتماعی شعور کا اندازہ ان کی پالیسیوں ا ور ترجیحات سے لگایا جاتا ہے پاکستان میں ہرحکومت کے لیے ہاﺅسنگ کا شعبہ اس لیے اولین ترجیح رہا ہے کہ ہماری قیادتوں کو 73سالوں سے زمینیوں سے زیادہ پیسا کمانے کا آسان ذریعہ اور کوئی نہیں ملا.

انہوں نے کہا کہ زرعی زمینوں کے رہائشی کالونیوں میں بدلنے سے زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم خوراک درآمد کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس سے حکمران اشرافیہ اور بیوروکریسی دونوں کا ”بھلا“ہوتا ہے دیہی علاقوں میں آباد زرعی رقبے سکڑتے جارہے ہیں اور شہروں کی جانب نقل مکانی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ اس ملک کے حقیقی مسائل پر آج تک توجہ نہیں دی گئی انہوں نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی کام کروائے گئے نہ روزگار کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سونا اگلنے والے رقبے ویران پڑے ہیں یا ان پر رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں.

میاں ندیم نے کہا کہ جو پالیسیاں قیام پاکستان کے فوری بعد بننا چاہیں تھیں وہ آج تک نہیں بن پائیں کہ کم ازکم ڈویژنل ہیڈکواٹرکی سطح پر یونیورسٹی کیمپس‘میڈیکل کالج‘جدیدسہولتوں سے آراستہ ہستپال‘انڈسٹری‘ٹیکنکل تربیت کے ادارے موجود ہوتے تو آج کا پاکستان مختلف ہوتا مگر ہر حکومت کا سارا زورکسی ایک شہر پر رہا ہے نون لیگ اگر لاہور کو سارا پاکستان سمجھتی رہی ہے تو پیپلزپارٹی کے لیے لاڑکانہ اور کراچی ہی پاکستان رہا ان پالیسیوں سے نہ صرف بڑے شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھا بلکہ پسماندہ علاقوں میں احساس محرومی بڑھا.

انہوں نے کہا کہ ہم نے بیرون ملک اپنی لیبرکے لیے بھی کبھی کوئی باضابط پالیسی نہیں بنائی بیرون ممالک ہنر مند ورکرغیرہنرمندوں سے نہ صرف زیادہ کماتے ہیں بلکہ ان کے ترقی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں ہم نے عالمی لیبرمارکیٹ کے لیے کبھی کوئی پالیسی نہیں تشکیل دی جس کے تحت لیبر کو نہ صرف مختلف ہنر سکھائے جاتے بلکہ جس ملک یا خطے کے لیے انہیں تیار کیا جارہا ہے وہاں کی مقامی زبان کے بنیادی کورس کروائے جاتے انہوں نے کہا کہ ان ساری ناکامیوں میں حکومتوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی اور ملک میں رائج نظام ذمہ دار ہیں مگر ان کے تجربات اور غلطیوں کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے .

ادھر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ہم نئی پابندیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے ڈالر ہمارے کنٹرول سے باہر ہونے سے ملک پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہے انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ملک اپنے حالات کے مطابق کرنسی کو مصنوعی طور پر سہارادے کر رکھتی ہیں یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی منطق عجیب ہے جو رضا کارانہ طور پر اپنے ہی ملک کی معیشت کو تباہ کررہے ہیں .

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مذکرات کرئے دنیا میں اور ملک بھی قرض لیتے ہیں مگر معاشی پالیسیاں وہ اپنی بناتے ہیں یہاں عالمی مالیاتی ادارے معاشی پالیسیاں دے کراپنے ایجنٹ عمل درآمدکے لیے بجھواتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کبھی بھی ان کے چنگل سے نکل پائے انہوں نے کہا کہ آزدانہ فیصلے اب ہماری بقاءکے لیے ضروری ہوگئے ہیں ہم نے اب بھی درست فیصلے نہ کیئے توملک کو ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ ہے .