Live Updates

ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے،شاہ محمود قریشی کا عالمی برادری پر زور

اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو وہ خطے کیلئے اور سب کیلئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے،موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان میں چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں،طالبان کی عبوری قیادت عالمی برادری کے تحفظات دور کرے، عالمی برادری، افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری کی متقاضی ہے،افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں طالبان عبوری قیادت کو بھی دعوت دی جائے گی،ہندوستان، افغانستان کے حوالے سے، دروغ گوئی کے ذریعے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے، قائمہ کمیٹی کو بریفنگ

منگل 16 نومبر 2021 18:12

ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 نومبر2021ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے،اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو وہ خطے کیلئے اور سب کیلئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے،موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان میں چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں،طالبان کی عبوری قیادت عالمی برادری کے تحفظات دور کرے، عالمی برادری، افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری کی متقاضی ہے،افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں طالبان عبوری قیادت کو بھی دعوت دی جائے گی،ہندوستان، افغانستان کے حوالے سے، دروغ گوئی کے ذریعے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا اجلاس، کمیٹی چیئرپرسن محترمہ شیریں رحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نیخصوصی شرکت کی ۔ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے دیگر اراکین بھی شریک ہوئے ۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر اراکین اجلاس کو خصوصی بریفنگ دی اور کہاکہ 15 اگست کے بعد ہماری حکمت عملی یہی رہی ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا تعمیری رابطہ برقرار رہے۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری نظر میں پاکستان نے اپنے اقدامات سے عالمی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔انہ;ںنے کہاکہ ہم نے کوشش کی کہ امریکہ کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ افغانستان سے لاتعلقی کی پالیسی ان کے مفاد میں نہیں،اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو وہ خطے کیلئے اور سب کیلئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یورپی یونین کے ممالک کو بھی ہم نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہم پہلے سے 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیںلیکن اگر اب افغانستان میں صورتحال خراب ہوتی ہے تو مہاجرین کی یلغار نہ صرف خطے بلکہ یورپ کی جانب بھی ہو سکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یورپی یونین کے ممالک نے ہماری بات پر توجہ دی۔ انہوںنے کہاکہ دہشت گردی کے خطرات نہ صرف ہمارے لیے بلکہ سب کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔

انہوںنے کہاکہ موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان میں چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میری نظر میں، 15 اگست کے بعد ہماری سفارتی کاوشوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، کابل سے مختلف ممالک کے سفارتی عملے کے انخلاء میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا گیا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے 37 ممالک کے 30 ہزار سے زیادہ شہریوں کو کابل سے محفوظ انخلاء میں مدد فراہم کی۔

انہوںنے کہاکہ 15 اگست کے بعد کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے افغانستان میں ابھرتے ہوئے انسانی بحران کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ اس وقت عالمی برادری افغانوں کی انسانی معاونت کا عندیہ دے چکی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان سے متعلقہ امور پر پاکستان نے لاتعلقی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے عالمی برادری کے تحفظات کو طالبان کی عبوری حکومت تک پہنچایااور انہیں بتایا کہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنا آپ کے مفاد میں ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشاورت کا میکنزم اپنایا، ہماری کوشش تھی کہ علاقائی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ اسلام آباد میں 8 ستمبر کو میری صدارت میں افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کا پہلا اجلاس ہوا، دوسرا اجلاس تہران میں ہوا۔ انہوںنے کہاکہ دوشنبے میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر تاجکستان اور میں نے تاجک وزیر خارجہ کو افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں لیا، ہماری کوشش تھی کہ غلط فہمیاں دور ہوں اور ہم اجتماعیت کی جانب آگے بڑھیں۔

انہوںنے کہاکہ تہران میں 27 اکتوبر کو افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے دوسرے اجلاس کے موقع پر میری تاجک وزیر خارجہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی، ٹرائیکا میں امریکہ، روس، چین اور پلس میں پاکستان شامل ہے، یہ ایک انتہائی اہم فورم ہے کیونکہ اس میں پی 5 میں سے تین ممالک شامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہماری سفارتی کاوشوں سے ٹرائیکا پلس کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

انہوںنے کہاکہ 21 اکتوبر کو میں خود افغانستان گیا اور وہاں مجھے طالبان کی عبوری حکومت کی اہم قیادت سے ملاقات اور تبادلہ خیال کا موقع ملا،انہوں نے بتایا کہ حکومت سازی کے سیکنڈ فیز میں ہم نے تاجک اور ازبک سمیت تمام گروہوں کو نمائندگی دی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے طالبان کی عبوری قیادت کو قائل کیا کہ وہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کریں، ہماری دعوت پر ان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں ایک اعلیٰ وزارتی وفد پاکستان آیا۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان 38 ملین کا ملک ہے وہاں پچھلے دو سال سے قحط جیسی صورتحال ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے بحیثیت ہمسایہ انہیں ادویات، خوراک و دیگر انسانی امداد زمینی و ہوائی ذرائع سے پہنچائیں، میں نے دورہ کابل کے دوران وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے 5 ارب روپے معاونت کا اعلان کیا۔ انہوںنے کہاکہ جنیوا میں افغانستان کی انسانی معاونت کیلئے 1.2 ارب ڈالر کی معاونت کا عندیہ دیا گیا، جی 20 کے اجلاس میں ایک ارب یورو انسانی معاونت فراہم کرنے کا عندیہ دیا گیا،اس وقت میری نظر میں افغانستان کے تمام 34 صوبے طالبان کے زیر نگیں ہیں، افغانستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ خوش آئند بات یہ ہے کہ افغانستان میں سول وار اور مہاجرین کی یلغار کا خطرہ ٹل گیا، 15 اگست کے بعد سوشل میڈیا پر ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں عائد کروانے کیلئے کمپین چلائی گئی جسے پاکستان نے بے نقاب کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ چالیس سال کے بعد افغانستان میں امن کی بحالی کا ایک واضح امکان پیدا ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ عالمی برادری،کا بنیادی مطالبہ محفوظ راستے کی فراہمی تھا جس میں ہم نے بھرپور معاونت کی، عالمی برادری، افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری کی متقاضی ہے، طالبان عبوری حکومت کے مطابق ان کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے کافی وسائل موجود نہیں، قطر، ازبکستان،ترکمانستان کے وزرائے خارجہ کابل گئے ہیں اور ان سے مل کر آئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں طالبان عبوری قیادت کو بھی دعوت دی جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا،جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی تاکہ قومی اتفاق رائے قائم کیا جائے، 15 اگست کے بعد سات وزرائے خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے چھہترویں اجلاس کے موقع پر میری سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور صدر سلامتی کونسل سمیت بہت سے ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی۔

انہوںنے کہاکہ نیویارک میں سیکرٹری بلنکن کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی، امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلکن کے ساتھ ملاقات بہت سود مند رہی۔ انہوںنے کہاکہ ہماری کاوشوں سے ہندوستان کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بے نقاب ہوا، حکومتوں کی مدتیں محدود ہوتی ہیں جبکہ قومی مفادات ان سے کہیں بالاتر ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان کے خلاف ہندوستان کے پراپگنڈہ کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ہم نے بھرپور کاوشیں کیں، ہندوستان، افغانستان کے حوالے سے، دروغ گوئی کے ذریعے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا ہے، ہندوستان کی آشیرباد اور منفی رویے سے اشرف غنی کی حکومت بین الافغان مذاکرات میں خلل ڈالتی رہی، ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے ناقابل تردید شواہد پر مبنی ڈوزیر جاری کیا۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات