شاعر قتیل شفائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ریڈیو پاکستان پروگرام'' فن اور فنکار'' کا انعقاد

بدھ 26 جنوری 2022 17:23

شاعر قتیل شفائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ریڈیو پاکستان پروگرام'' ..
لاہور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 26 جنوری 2022ء) شاعر اور نغمہ نگار قتیل شفائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جاری ریڈیو پاکستان لاہور کے پروگرام'' فن اور فنکار'' کا دوسرا حصہ نشر کیا گیا،پروگرام میں شوبز اور ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی ۔ اس موقع پر اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد پرویز کا کہنا تھا کہ قتیل شفائی کے فن کی بڑی خوبی ان کے غنائیت ے بھر پور الفاظ تھے جو موسیقاروں کی دھنوں میں رچ بس جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا فن لامحدود تھا جس سے ہمسایہ ملک کے موسیقاروں نے استفادہ کیا، پروگرام کے دوران موسیقار سجاد طافو نے ملکہ ترنم نورجہاں کا رشید عطرے کی موسیقی میں ترتیب دیا فلم نیند کا گانا جو ان پر ہی پکچرائز ہوا تیرے در پر صنم چلے آئے کو گیٹار پر پرفارم کرکے سماں باندھ دیا۔

(جاری ہے)

اپنی گفتگو میں لیجنڈ ہدایت کار اور فلمی مصنف ناصر ادیب کا کہنا تھا کہ قتیل شفائی کے نغمات سن کر ہی میں نے فلم انڈسٹری کو جوائن کیا، میری ان سے کم ملاقاتیں رہیں مگر ان کے گیت میں آج بھی گنگناتا ہوں ،یہ میری یادوں کا حصہ ہیں۔قتیل شفائی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اردو ادب کے استاد اور معروف شاعر ناصر بشیر کا کہنا تھا کہ ان کے نغمات میں ہندی الفاظ کی آمیزش دھنوں پر فٹ بیٹھتی تھیں جس کی وجہ سے ان کا صوتی رنگ مزید دلفریب ہوجاتا تھا،وہ مرنجا مرنج شخصیت کے حامل تھے، کئی مشاعروں کے اختتام پر وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آتے جہاں چائے کا دور چلتا ،انھوں نے کئی کتابیں بھی مجھے گفٹ کیں اور ان کے طویل انٹرویوز بھی میں نے اخبار میں شائع کیے ۔

شاعر اور محقق ایم آر شاہد کا اپنی گفتگو میں کہنا تھاکہ میری ان سے نسبت میرے استاد احمد ندیم قاسمی کے توسط سے بنتی ہے ، میں نے انھیں ہمیشہ مشفق پایا اور جہاں تک ان کی شاعری کا تذکرہ ہے تو انھوں نے اپنی شاعری کے ادبی رنگ کو سات سروں میں ڈھال کر اسے جلا بخشی، ان کے الفاظ اور سر ایک ساتھ مل جاتے، پروگرام کے پروڈیوسر مدثر قدیر تھے۔