کیا شہباز شریف بڑے سیاسی کردار کے لیے تیار ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 10 اپریل 2022 11:20

کیا شہباز شریف بڑے سیاسی کردار کے لیے تیار ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2022ء) شہباز شریف ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ نواز شریف کو ان کے عہدے سے سن 2017ء میں ہٹا دیا گیا تھا اور بعد میں انہیں مالی بد عنوانی کے کیس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ دو سال تک ایک پاکستانی جیل میں رہنے کے بعد طبی علاج کرانے کے مقصد سے برطانیہ گئے تھے اور ابھی تک وہیں رہائش پذیر ہیں۔

تجربہ کار سیاست دان

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو سیاست کا کافی تجربہ ہے۔ وہ کئی سال اقتصادی اور سیاسی طور پر طاقت ور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ نواز شریف کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان ملسم لیگ ن کے صدر بنے تھے۔

ستر سالہ شہباز شریف کو وراثت میں اپنے خاندان کی سٹیل مل ملی تھی اور پہلی مرتبہ 1988ء میں وہ صوبائی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انہوں نے کئی بڑے تعمیراتی منصوبے ممکمل کیے۔ لاہور میں پہلی میٹرو بس سروس بھی انہوں نے ہی متعارف کرائی تھی۔

لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں صحت، زرعی اصلاحات اور دیگر شعبوں میں بہتری کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے تھے۔

مالی بد عنوانی کے الزامات

اپنے بڑے بھائی کی طرح شہباز شریف کو بھی مالی بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔

دسمبر 2019 میں ملک کے قومی احتساب بیورو نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی قریب دو درجن املاک ضبط کر لی تھیں۔ ان پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ ستمبر 2020ء میں شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن چھ ماہ بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔ ان کے خلاف یہ مقدمہ اب بھی زیر سماعت ہے۔

پاکستانی فوج کے قریب

اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے برعکس، جن کے پاکستان کی طاقت ور فوج کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے، شہباز شریف کا رویہ قدرے لچک دار ہے۔

وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد کے سیاسی ایوانوں اور راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے درمیان تعاون کے حامی ہیں۔

اپنی کئی شادیوں کی وجہ سے اسکینڈلز اور مالی بدعنوانی کے الزامات کے باوجود شہباز شریف اس وقت پاکستان کے نامور ترین سیاست دان ہیں۔ اگر ملکی پارلیمان نے انہیں ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا، تو انہیں اس وقت سست روی کا شکار معیشت اور تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی پر تشدد کارروائیوں سے نمٹنے جیسے کئی مختلف چینلجز کا سامنا کرنا ہو گا۔

ب ج / م م (اے ایف پی)