حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کا ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کی25 منحرف ارکان ڈی سیٹ ،ریفرنس منظور

منحرف ارکان کی پنجاب اسمبلی کی رکنیت ختم کی جاتی ہے اور منحرف ارکان کی نشستیں خالی قرار دی جاتی ہیں، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا

جمعہ 20 مئی 2022 22:01

حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کا ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کی25 منحرف ارکان ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2022ء) الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ کا ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کر دیا۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے خلاف ریفرنس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ اتفاق رائے سے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ قرار دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے 23 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے اراکین وزیراعلیٰ کے انتخاب میں مخالف جماعت کے امیدوارکو ووٹ دیکر منحرف ہوئے، الیکشن کمیشن منحرف ارکان کے خلاف ڈکلیئریشن منظور کرتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ منحرف ارکان کی پنجاب اسمبلی کی رکنیت ختم کی جاتی ہے اور منحرف ارکان کی نشستیں خالی قرار دی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

ڈی سیٹ ہونے والوں میں 16 ارکان کا تعلق ترین خان گروپ سے ہے جبکہ 5 ارکان کا تعلق علیم خان گروپ اور 4 ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کا تعلق اسد کھوکھر گروپ سے ہے۔ڈی سیٹ ہونے والوں میں راجہ صغیرپی پی 7 راولپنڈی،ملک غلام رسول سانگھا پی پی 83 خوشاب،سعید اکبر نوانی پی پی 90 بھکر،محمد اجمل چیمہ پی پی 97 فیصل آباد،عبد العلیم خان پی پی 158 لاہور ،نذیر چوہان پی پی 167 لاہور،امین ذوالقرنین پی پی 170 لاہور،ملک نعمان لنگڑیال پی پی 202 ساہیوال،سلمان نعیم پی پی 217 ملتان،زوار حسین وڑائچ پی پی 224 لودھراں،نذیر احمد خان پی پی 228 لودھراں،فدا حسین پی پی 237 بہاولنگر،زہرا بتول پی پی 272 مظفر گڑھ،لالہ طاہر پی پی 282 لیہ،اسد کھوکھر پی پی 168 لاہور،محمد سبطین رضا پی پی 273 مظفر گڑھ،محسن عطا خان کھوسہ پی پی 288 ڈی جی خان،میاں خالد محمود پی پی 140 شیخوپورہ،مہر محمد اسلم پی پی 127 جھنگ،فیصل حیات جبوانہ پی پی 125 جھنگ،عائشہ نواز، ڈبلیو 322 مخصوص نشست،ساجدہ یوسف ڈبلیو 327 مخصوص نشست،عظمیٰ کاردار ڈبلیو 311 مخصوص نشست،ہارون عمران گل، این ایم 364 اقلیتی نشست اور اعجاز مسیح این ایم 365 اقلیتی نشست شامل ہیں ۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام اراکین کو پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالنے پر نااہل کیا گیا۔بعد ازاں تحریری فیصلے میں کہاگیاکہ الیکشن کمیشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ارکان نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مخالف جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا ،مخالف امیداور کو ووٹ ڈالنے سے انحراف ثابت ہو گیا،منحرف ارکان کی نشستیں خالی ہوگئیں۔

تحریری فیصلے میں کہاگیاکہ الیکشن کمیشن کے پاس اس ریفرنس سے متعلق دو آپشنز تھے، ہمارے پاس آپشن تھا کہ ووٹ ڈالنے والے ارکان کو 63 اے کی شرائط پوری نہ ہونے پر مسترد کر دیا جائے، دوسرا اپشن تھا کہ مخالف امیدوار کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنا سنگین معاملہ ہے، جیسا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا۔تحریری فیصلہ میں کہاگیاکہ الیکشن کمیشن کی رائے ہے کہ ارکان کا مخالف امیدوار کو ووٹ ڈالنا ایک سنگین معاملہ ہے، مخالف امیدوار کو ووٹ دینا پارٹی پالیسی سے دھوکہ دہی کی بدترین شکل ہے۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے نااہلی سے متعلق ریفرنس پر اپنا فیصلہ جمعہ سہ پہر 3 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا،ای سی پی نے ایک روز قبل اس کیس میں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔کمیشن نے 17 مئی کو ریفرنس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اعلان آئندہ روز بدھ کو 12 بجے کیا جائیگا تاہم بعد میں اس اعلان کو ملتوی کردیا گیا تھا۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63 (ای) کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اہم ہے جو رواں ہفتے کے اوائل میں آیا تھا۔

آرٹیکل 63 (ای) قانون سازوں کو 'وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے سلسلے میںیا اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ، یا منی بل یا آئینی (ترمیمی) بل پرپارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ دینے (یا پرہیز کرنی) سے روکتا ہے،اس آرٹیکل کی تشریح میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ پارٹی کی ہدایت کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا اور انہیں نظر انداز کیا جانا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں نے حمزہ شہباز کو اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی، انہوں نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ سادہ اکثریت کیلئے 186 ووٹ درکار تھے،اگر پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے 25 ووٹ ان کی تعداد سے نکال دیے جائیں تو وہ اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

حمزہ شہباز کے 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو منحرف قرار دینے کا اعلامیہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی کو بھیجا تھا، جو وزیر اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی،پی ایم ایل (ق) کے مشترکہ امیدوار بھی تھے۔اس کے بعد پرویز الہٰی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا اور اس پر زور دیا تھا کہ ان قانون سازوں کو پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا جائے۔

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔اگر پارلیمنٹرین وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کیلئے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔آرٹیکل میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے تاہم اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ 'منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کریگا۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا،بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن 'ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائیگی۔