آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود قسط کی ادائیگی کی کے لیے امریکا سے مددکی درخواست

عالمی مالیاتی ادارے نے تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس کی مد میں125ارب اضافی بوجھ ڈالنے اور رعاتیں ختم کرنے کا مطالبہ کردیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 17 جون 2022 12:05

آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود قسط کی ادائیگی کی کے لیے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 جون ۔2022 ) پاکستان نے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے امریکا سے مدد طلب کرلی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے اب تک کیے گئے بہت سخت اقدامات کے باوجود عالمی مالیاتی ادارہ ابھی تک اسٹاف لیول معاہدے پر راضی نہیں ہورہا.

(جاری ہے)

گزشتہ روز حکومت کی اقتصادی ٹیم نے پاکستان میں امریکی سفیرڈونلڈ بلوم سے ملاقات کی اور اس ضمن میں ان سے مدد کی درخواست کی ملاقات میں ہونے والی گفتگوکے حوالے سے سرکاری ذرائع نے” ایکسپریس ٹریبیون“ کو بتایا کہ امریکی سفیرکو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور معاشی استحکام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا گیا ہے البتہ وزارت خزانہ نے سرکاری طور پر ابھی اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا.

امریکی سفیر سے ملنے والی پاکستانی ٹیم میں وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا شامل تھیں واضح رہے امریکا آئی ایم ایف میں سب سے بڑا شراکت دارملک ہے اور وہ ماضی میں بھی پاکستان کو جاری ہونے والے فنڈزپروگراموں میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اس ملاقات میں پاکستانی حکام نے امریکی سفیر کو بتایا کہ حکومت نے ان مشکل حالات میں بھی مالیاتی استحکام کے لیے اپنی جی ڈی پی کے2.2 فیصد کے برابر اقدامات کیے ہیں.

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کیلئے اب تک تین دور ہوچکے ہیں،ان میں دو ادوار موجودہ حکومت کے ساتھ ہوئے ہیں اس کے علاوہ کئی آن لائن رابطے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے جمعرات کی شام تک پاکستان کے ساتھ اپنی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے میمورنڈم (MEFP)کا ڈرافٹ تک شیئر نہیں کیا تھاجو سٹاف سطح کے مذاکرات کی بنیاد ہوتا ہے،اس کے بغیر آئی ایم ایف کسی معاہدے پر دستخط نہیں کرتا.

پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا پروگرام گزشتہ مارچ سے رکا ہوا ہے کیونکہ گزشتہ حکومت نے عالمی ادارے کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا تھا پاکستان اورامریکا کے درمیان یہ مذاکرات آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پیز) کو کی جانے والی ادائیگیوں کے حوالے سے اس کا موقف سامنے آنے کے بعد ہورہے ہیں جس میں عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال چینی آئی پی پیزکو کی جانے والی ادائیگیوں کو نان سی پیک منصوبوں کو ملنے والی رعایتوں تک بڑھایا جائے.

آئی ایم ایف نے گزشتہ روز اپنے ریذیڈنٹ نمائندہ ایستھرپیریز کے حوالے سے بیان جاری کرکے ان باتوں کو غیرحقیقی قراردیا تھا اور کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے سی پیک آئی پی پیز معاہدوں کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنے پراصرارنہیں کیا بلکہ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ وہ تو انرجی سیکٹر کی بحالی کیلئے حکومت کی ان کثیرجہتی کوششوں کی حمایت کرتا ہے جن کے سٹیک ہولڈر حکومت ،پاور پروڈیوسر اوربجلی صارفین سب ہیں گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کی کنٹری ہیڈ نے ایکسپریس ٹریبیون کے سوال پراس ضمن میں ایک جامع بیان جاری کیا تھا.

ایکسپریس ٹریبیون نے ان سے سوال کیا تھا کہ آیا یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف کی منشا ہے کہ پاکستان چینی آئی پی پیز سے مذاکرات کرکے ان سے رعایتوں کا مطالبہ کرے جیسا کہ اس نے 1994اور 2002ءمیں اپنے ذمہ واجب الادا رقوم پر کیے تھے گزشتہ ہفتے اس حوالے سے اپنے تفصیلی جواب میں آئی ایم ایف نے اس بات سے انکار نہیں کیا وہ پاکستان کو ایسا کرنے کے لیے کہہ رہا ہے.

آئی ایم ایف کا کہنا تھاکہ حکومت پاکستان کو اس بات کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ اس کے پاس اپنے ذمہ واجب الاد رقوم کی ادائیگی کیلئے مالی وسائل بہت محدود ہیں اس وقت چینی پاور کمپنیوں کے300 ارب روپے پاکستان کے ذمہ واجب الادا ہیں اورآئی ایم ایف ان ادائیگیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اس وقت پاکستان میں 11 چینی پاور کمپنیاں ہیں جنہوں نے یہاں 10.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کار کر رکھی ہے ان پاور کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت 5 ہزار 320 میگاواٹ ہے ان میں2 ہزار میگاواٹ کے پاور پلانٹ اس وقت درآمدی کوئلہ نہ ملنے کی وجہ سے بند پڑے ہیں.

پاکستان کے ایک سینئر مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے ہرممکن کوشش کررہی ہے اور اس نے اس ضمن میں بعض غیرمقبول فیصلے بھی کیے ہیں لیکن عالمی ادارے کی توقعات ابھی تک پوری نہیں ہو پارہیں حکومت پاکستان کو امید تھی کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کے ٹیرف میں اضافے کیلئے اقدامات کے بعد آئی ایم ایف سٹاف لیول مذاکرات پر تیار ہوجائے گا لیکن آئی ایم ایف اب نہ صرف تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں دی جانے والی مراعات واپس لینے پر اصرار کررہا ہے بلکہ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے 125ارب اضافی محصولات وصول کیے جائیں حکومت پاکستان اب نئی تجویز پر کام کررہی ہے جس کے تحت تنخواہ دار طبقے کو دیا جانے والا 47 ارب روپے کا ریلیف واپس لینے کے ساتھ ساتھ اس سے 18 ارب روپے اضافی ریونیووصول کیا جائے گا.

دریں اثنا گزشتہ روز سینیٹ کمیٹی خزانہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے وزیرمملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا نئے بجٹ پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات سلجھ رہے ہیں اور امید ہے کہ اس کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کا معاہدہ جلد ہوجائے گا. ادھرحکومت نے اپنے مجوزہ وفاقی بجٹ برائے 23-2022 میں تنخواہ دار طبقے کو فراہم کیا گیا ٹیکس ریلیف واپس لینے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے رپورٹ کے مطابق حال ہی میں پیش کیے گئے بجٹ میں حکومت نے غیر متوقع طور پر زیادہ تنخواہوں والے افراد کو ٹیکس کی شرح کے لحاظ سے بڑا ریلیف دیا تھا اور ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح کو 35 فیصد سے کم کر کے 32.5 فیصد کر دیا تھا.

اس کے علاوہ مجوزہ بجٹ میں ٹیکس سلیبس کی تعداد بھی 12 سے کم کر کے 7 کر دی گئی تھی سرکاری ذرائع کے مطابق نظرثانی شدہ ٹیکس سلیب اور دیگر تجاویز عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو جمع کرادی گئی ہیں عہدیدار نے کہا کہ ’تکنیکی سطح پر بات چیت آئندہ چند روز میں شروع ہو جائے گی ان کا کہنا تھا کہ وہ تنخواہ دار طبقے کو نچلے سلیبس میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں گے اسلام آباد میں فنڈ کے نمائندے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ’حکام کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تا کہ کچھ ریونیو اور اخراجات کے بارے میں مزید وضاحت حاصل کی جائے”ڈان نیوز“ کی جانب سے ارسال کردہ تحریری سوالات کا جواب دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی ریزیڈینٹ نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ جمعہ قومی اسمبلی میں بجٹ کا مسودہ پیش کیا گیا انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق بجٹ کو مضبوط بنانے اور اسے اہم پروگرام کے مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہوگی آئی ایم نمائندہ کا کہنا تھا کہ ’فنڈ کا عملہ اس سلسلے میں اور عمومی طور پر میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دینے کے لیے پالیسیوں کے نفاذ میں حکام کی کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے.