کابل پر بین الاقوامی پابندیاں: کیا اسلام آباد کچھ کر سکتا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 30 جون 2022 19:40

کابل پر بین الاقوامی پابندیاں: کیا اسلام آباد کچھ کر سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2022ء) پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان پر سے پابندیاں ہٹائے اور اسے منجمد کیے ہوئے پانچ بلین ڈالرز واپس کرے۔ ان کے اس بیان کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے کہ آیا پاکستان بھی ان پابندیوں کو اٹھوانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔

حنا ربانی نے کیا کہا

پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر افغانستان پر سے پابندیاں نہیں ہٹیں، تو وہ معاشی طور پر بالکل دیوالیہ ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی طور پر افغانستان کو تنہا کرنے سے، وہ معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے سوال کیا کہ افغانستان کی جنگ پر تین ٹریلین ڈالرز خرچ کیے جا سکتے ہیں تو افغانوں کے بچاؤ کے لیے 10 ارب ڈالر کیوں نہیں دیے جاسکتے۔

پاکستان پابندیاں اٹھوانے میں کردار ادا کر سکتا ہے؟

بین الاقوامی امور کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان کا اس وقت دنیا میں واحد حمایتی اسلام آباد ہے اور اسلام آباد طالبان کے لیے وہ واحد دروازہ ہے، جس کے ذریعے وہ دنیا سے رابطے میں ہیں۔ لہٰذا کابل حکومت اسلام آباد کو ضرور سنے گا لیکن اس کے لیے افغان طالبان کو اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔

اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بین الاقوامی برادری میں اتنا اثر رسوخ نہیں ہے تاہم ان کا افغان طالبان پر اثر ورسوخ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بین الاقوامی برادری نے طالبان پر پابندیاں اس لیے لگائیں ہیں کیونکہ وہ خواتین کے حقوق کو سلب کر رہے ہیں۔

انہیں تعلیم روزگار اور دوسرے شعبوں میں حقوق نہیں دیے جا رہے۔ طالبان وعدہ کرنے کے باوجود ایک ایسی حکومت تشکیل نہیں دے پا رہے، جس میں افغانستان میں رہنے والی تمام لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ اکائیوں کی نمائندگی ہو۔ اگر پاکستان، طالبان کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے حوالے سے اپنا رویہ تبدیل کرلیں، تو پھر اسلام آباد بین الاقوامی برادری کے سامنے طالبان کا مقدمہ لڑ سکتا ہے۔

‘‘

ڈاکٹر امان میمن کے مطابق افغان طالبان مفتی تقی عثمانی سمیت کئی پاکستانی علما کی بہت عزت کرتے ہیں: ''پاکستان ان علما کو افغان طالبان کو قائل کرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ اگر طالبان پاکستان کے کہنے یا قائل کرنے پر بین الاقوامی اصولوں کو مان سکتے ہیں، تو بین الاقوامی برادری ان پابندیاں میں نرمی کر سکتی ہے۔‘‘

پاکستان کا کوئی کردار نہیں

تاہم کچھ دوسرے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی عالمی سطح پر ایسی پوزیشن نہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کے حق میں قائل کر سکے۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان خود ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے بہت ساری پریشانیوں کا شکار ہے، تو پاکستان طالبان کی کیسے مدد کر سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہت اچھی نہیں ہے اور پھر افغان طالبان پاکستان کی بات نہیں مانیں گے۔

وہ تو خود تحریک طالبان پاکستان کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اوراسلام آباد پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات مانے۔‘‘

تاہم امان میمن اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہیں ہے: ''طالبان تجارت اور دوسرے کاموں کے لیے پاکستان کو استعمال کر رہے ہیں۔

یہاں تک کہ بھارت سے بھی اگر کوئی تجارت ہوتی ہے تو وہ بھی پاکستان کے ذریعے ہی ہوگی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تنظیمیں بھی پاکستان کی مدد کے بغیر طالبان کی مدد نہیں کر سکتیں۔‘‘

ڈاکٹر امان کے بقول افغان طالبان کے ذہن میں یہ سارے عوامل ہیں اور وہ پاکستان کو اس حوالے سے بھی اہمیت دیتے ہیں۔

انسانی بنیادوں پر مدد

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے پاکستان سیاسی طور پر طالبان کی مدد نہیں کر سکتا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان تاہم بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر افغانستان میں رونما ہونے والے انسانی المیہ کو روک سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر بین الاقوامی پابندیاں ہٹالی جائیں، تو پاکستان بہت محدود پیمانے پر افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی کے حوالے سے بھی مدد کر سکتا ہے۔‘‘