ٹی ٹی پی کے بانی رکن عمر خالد خراسانی افغانستان میں ہلاک

DW ڈی ڈبلیو منگل 9 اگست 2022 09:20

ٹی ٹی پی کے بانی رکن عمر خالد خراسانی افغانستان میں ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اگست 2022ء) کئی جنگجو کمانڈروں اور ایک انٹلی جنس افسر نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سینیئر کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خراسانی کے ساتھ ان کے تین دیگر ساتھی بھی ہلاک ہوگئے۔

ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ خراسانی اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا میں ایک کار پر سفر کر رہے تھے کہ اتوار کی شام سڑک کے کنارے نصب کیے گئے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔

ایک جنگجو کمانڈر احسان اللہ احسان نے بھی ٹویٹ کر کے ان کی ہلاکت کی تصدیق کی اور کہا،"وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔"

اطلاعات کے مطابق خراسانی کی گاڑی مارغہ کے قریبی ضلعے ارگون کے سفر کے دوران دھماکے کی زد میں آئی۔

(جاری ہے)

ان کے داماد علی حسان مہمند اور دو سابق اہم کمانڈر مفتی حسن سواتی اور حافظ دولت خان اورکزئی بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

ذرائع نے تاہم کہا کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ خراسانی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ نے ٹی ٹی پی کی ایک شاخ جمیعت الاحرار کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا تھا اور اس کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی گرفتاری یا ہلاکت میں مدد کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے پر 30 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔

عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب صرف ایک ہفتے قبل ہی امریکہ نے بتایا تھا کہ اس نے کابل میں ایک گیسٹ ہاوس پر ڈرون حملہ کرکے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا۔

طالبان حکومت اور پاکستان کا تبصرہ کرنے سے انکار

کابل کی طالبان حکومت اور پاکستانی فوج اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کے حوالے سے تبصرہ کے لیے درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ٹی ٹی پی نے کہا کہ خراسانی کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد ہی وہ تفصیلی بیان جاری کرے گا۔

خراسانی ٹی ٹی پی کے بانی رکن تھے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں اسلامی شدت پسندوں کی ریاست مخالف جنگ اور ٹی ٹی پی کو منظم کرنے میں ان کا کردار کافی اہم تھا۔ ان کا شمار ٹی ٹی پی کے طاقت ور اور بااثر رہنماوں میں ہوتا تھا۔

عمر خالد خراسانی کو ماضی میں بھی ہلاک کرنے کی کوششیں ہوتی رہی تھیں تاہم وہ ہر بار بچ نکلنے میں کامیاب رہے تھے۔

سن 2015 میں افغان صوبہ ننگرہار کے پاکستان سے متصل ایک سرحدی علاقے پر امریکی اور افغان فورسز کے حملے میں وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے کئی اہم ساتھی مارے گئے تھے۔

امن مذاکرات کا کیا ہوگا؟

خراسانی گروپ نے ماضی میں پاکستان میں پولیس، فوج، اقلیتی شیعہ اور مسیحی برادری پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اپنے شیعہ مخالف موقف کے سبب خراسانی گروپ نے چند سال قبل افغانستان اور پاکستان میں داعش سے ہاتھ ملالیا تھا تاہم گزشتہ برس وہ ٹی ٹی پی میں دوبارہ شامل ہوگیا۔

خراسانی ایک وقت حکومت پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کے خلاف تھے۔ تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں جب پاکستان نے علماء کا ایک وفد امن مذاکرات کے لیے کابل بھیجا تو اس وفد کے ساتھ بات چیت کرنے والے ٹی ٹی پی کے وفد میں عمر خالد خراسانی بھی شامل تھے۔

عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان جاری امن مذاکرات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبرمیں شروع ہونے والے یہ امن مذاکرات اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، ڈی پی اے)