سپریم کورٹ کا واپس کیے گئے تمام نیب ریفرنسز کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم

نیب سے پوچھیں گے کہ واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں ممکن ہیں واپس ہونے والے ریفرنس دوبارہ دائر ہوں یا کسی اور عدالت جائیں،چیف جسٹس

منگل 18 اکتوبر 2022 17:29

سپریم کورٹ کا واپس کیے گئے تمام نیب ریفرنسز کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2022ء) سپریم کورٹ نے واپس ہونے والے تمام نیب ریفرنسز کا ریکارڈ محفوظ کرنے اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیدیا جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ نیب سے پوچھیں گے کہ واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں ممکن ہیں واپس ہونے والے ریفرنس دوبارہ دائر ہوں یا کسی اور عدالت جائیں۔

منگل کو سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی درخواست پر نیب ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کی۔پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ رینٹل پاور کیس سمیت بڑے مقدمات ختم کر دئیے گئے، حالیہ ترامیم کے ذریعے تیسرے فریق کے مالیاتی فائدے کو نیب دسترس سے باہر کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب بھی نیب قانون کو جانچنے کے لیے کسوٹی کی کھوج میں ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم قانون ڈیزائن کرکے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں کل کوئی شہری آ جائے گا کہ دس روپے کرپشن پر بھی نیب تحقیقات کرے، یہ سلسلہ کہیں تو رکنا چاہیے، ہم پارلیمان کے امور میں کیوں اور کیسے مداخلت کر سکتے ہیں نیب قانون کیا ہونا چاہیی یہ سپریم کورٹ کیسے تعین کرسکتی ہی آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون بدنیتی پر مشتمل ہے، ہم پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے کیسے دیں پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں پارلیمنٹ کو قانون ڈیزائن کرکے دیتی رہی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین نیب واپس آنے والے ریفرنس کو کہیں نہ بھیجے تو بس بات ختم ہوگئی اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جتنی تیزی سے ریفرنس واپس ہو رہے ہیں کہیں اور نہیں جا رہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب سے پوچھیں گے کہ واپس آنے والے ریفرنس کہاں جا رہے ہیں ممکن ہیں واپس ہونے والے ریفرنس دوبارہ دائر ہوں یا کسی اور عدالت جائیں، ہر ایک ذمہ دار کا احتساب ہونا چاہیے، ریفرنسز، ریکارڈ، شواہد، معلومت ستاویزات سب محفوظ ہونا چاہیے، ہر چیز کی فہرست مرتب کرکے محفوظ کی جائے۔

وکیل مخدوم علی خان نے اعتراض کیا کہ نیب سارا ریکارڈ جمع نہیں کروارہا، نیب صرف احتساب عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں جمع کروا رہا ہے، احتساب عدالتوں کے فیصلوں پر اعلی عدلیہ کے کیا فیصلے ہوئے نہیں بتایا جارہا، نیب سپریم کورٹ سے جو چھپا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مخدوم علی خان ثابت کریں گے کہ قانون تو ہے تاہم سزا نہیں، اخبارات ،دیگر حلقوں میں یہ بات چلتی رہی ہے کہ کچھ طبقات پر نیب پراسیکوشن نہیں ہونی چاہیے، ان طبقات میں ایک طبقہ کاروباری لوگوں کا بھی ہے، 1947 سے آج تک اہم سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کی کارروائی اس عمل کو بیلنس کرنے کیلئے لیکن یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

جسٹس اعجازِ الااحسن نے کہا کہ ہوسکتا ہے نیب قانون میں ترمیم کی ضرورت موجودہ ہو، عدالت کے سامنے سوال ہے کہ یہ ترامیم کس کی ضرورت ہیں یہ ترامیم ایک کلاس کے تحفظ کیلئے کرنے کا کہا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 1947 میں بھی احتساب کا قانون موجود تھا، آئیڈیا یہ ہے کہ درست کام کیا جائے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے واپس ہونے والے نیب ریفرنسز کا ریکارڈ محفوظ بنانے کا حکم دیا اور ان تمام ریفرنس کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ تمام ریکارڈ کو ڈیجٹلائز بھی کیا جائے۔ مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔