ٴڈی جے سائنس کالج کو سندھ حکومت کی جانب سے ایک سازش کے تحت بند کیا جارہا ہے : حافظ نعیم الرحمن

oسالانہ داخلوں میں بتدریج کمی کرنے اور تاریخی عمارت پر قبضے کے لیے دیگر سرکاری محکمے کے دفاتر قائم کرنے، کلاس روم و اساتذہ کی کمی کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے : امیر جماعت اسلامی کراچی

بدھ 9 نومبر 2022 19:50

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 نومبر2022ء) امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے انتہائی معیاری و تاریخی تعلیمی ادارے اور ہزاروں طلبہ و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے ڈی جے سائنس کالج کو سندھ حکومت کی جانب سے ایک سازش کے تحت بند کرنے اور سالانہ داخلوں میں بتدریج کمی کرنے اور تاریخی عمارت پر قبضے کے لیے دیگر سرکاری محکمے کے دفاتر قائم کرنے، کلاس روم و اساتذہ کی کمی کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے سندھ حکومت کا ایک اور کراچی دشمن اور تعلیم دشمن اقدام قرار دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی سندھ حکومت کی اس مذموم سازش اور کوششوں کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دے گی، حکومت ان کوششوں سے باز نہ آئی تو اس کے خلاف بھر پور احتجاج اور مزاحمت کرے گی، حافظ نعیم الرحمن نے اپنے ایک بیان میں مزید کہا کہ ڈی جے سائنس کالج کا شمار نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے معروف ترین تعلیمی اداروں میں ہو تا ہے، کالج کی خوبصورت اور دلکش تاریخی عمارت حسن ِ تعمیر کا بھی شاہکار ہے اور اس کا شمار کراچی کی اہم اور تاریخی عمارات میں کیا جاتا ہے، اسی لیے اسے قومی ورثے کا بھی درجہ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت نے یہاں مختلف سرکاری محکموں کے دفاتر قائم کرنے کے لیے توڑ پھوڑ کی ہے جس کے باعث کالج میں کلاس روم کی کمی ہو گئی ہے، حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق ڈی جے کالج میں ہر سال سینکڑوں طلبہ کو داخلہ دیا جاتا تھا جس میں 85فیصد کمی سامنے آئی ہے۔

(جاری ہے)

پروفیسر زاینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن اور اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے بھی اس تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کی ہے اور بتا یاہے کہ کالج میں اساتذہ کی بھی کمی ہے لیکن سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم نے نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے بلکہ درپردہ اس تاریخی عمارت پر قبضے اور کراچی کے طلبہ و طالبات کو ایک معیاری تعلیمی ادارے سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت 14سال سے زائد عرصے سے صوبے میں تمام تر اختیارات اور وسائل کے ساتھ برسراقتدار ہے لیکن اس نے کراچی میں تعلیم اور صحت سمیت تمام شعبوں کو تباہ و برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا،سرکاری تعلیمی ادارے اور ان کا معیارتعلیم مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اور جو چند تعلیمی ادارے اپنی بہتر کارکردگی کی بدولت اپنا تعلیمی معیار قائم رکھے ہوئے ہیں سندھ حکومت اب ان کو بھی تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

کالج میں 200طلبہ کا ایک ہاسٹل بھی قائم ہے مگر وہ ایک طویل عرصے سے طلبہ کے زیر استعمال نہیں ہے،1887ئ سے قائم ڈی جے کالج 130سا ل سے زائد عرصے سے اپنی تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے اور یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والوں نے مختلف شعبوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا ہے اور اس طویل فہرست میں اہم شخصیات غلام حسین ہدایت اللہ، بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیائ الرحمن، محسنِ پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان،نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر بدر الاسلام، مسلح افواج کے سربراہان جنرل جہانگیر کرامت،جنرل آصف نواز جنجوعہ،ایئرمارشل عظیم داؤد پوتہ، سابق وزیراعلیٰ سندھ محمد ایوب کھوڑو، سوٹ(SIUT)کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر ایف یو بقائی،معروف آرتھوپیڈک سرجن اور سابق صوبائی مشیر برائے کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ،سابق گورنر سندھ محمود اے ہارون،معروف سیاستدان مظفر حسین شاہ، سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو، سابق وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ، سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، نبی بخش بلوچ،سابق پرنسپل ایس ایم سائنس کالج پروفیسر حشمت اللہ لودھی، معروف شاعر شیخ ایاز، ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی،کھیلوں سے وابستہ شخصیات حسن سردار،منور زماں، شاہد علی خان اور صفدر عباس جبکہ فنون لطیفہ سے وابستہ انور مقصود شامل ہیں اور موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی اس کالج میں زیر تعلیم رہے ہیں