Jباچا خان 20 ویں صدی کے ان عظیم رہنماوں میں شمار ہوتے ہے جنہوں نے برصغیر کے عوام کے لیے بغیر رنگ و نسل، مذہب ، انکی آزادی اور ترقی کیلئے جدوجہد کی،خوشحال خان کاکڑ

پیر 30 جنوری 2023 23:00

’کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 جنوری2023ء) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئر مین خوشحال خان کاکڑ نے اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام باچا خان، ولی خان اور 21 صدی کے عنوان کے تحت منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باچا خان 20 ویں صدی کے ان عظیم رہنماوں میں شمار ہوتے ہے جنہوں نے برصغیر کے عوام کے لیے بغیر رنگ و نسل، مذہب ، انکی آزادی اور ترقی کیلئے جدوجہد کی۔

انگریزی استعمار سے آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ وہ ایک اصلاح پسند رہنما بھی تھے۔ انہوں نے پشتون معاشرے میں اصلاحات کیلئے 1921 میں انجمن اصلاح افاغنہ اور 1929 میں خدائی خدمتگار جیسے تحریکوں کا آغاز کیا جو ایک عدم تشدد کی تحریک تھی۔ انہوں نے تعلیم اور صحافت کیلئے بھی خدمات انجام دیئے۔

(جاری ہے)

1928 میں پشتون جرنل کے نام سے رسالہ متعارف کروایا جس میں انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کیلئے بھی تبلیغات کی جاتی تھی۔

باچا خان نے سیاسی جدوجہد کے دوران انگریز استعماراور پاکستان بننے کے بعد قیدوبند اور دیگر تکلیفات برداشت کئے ۔ انگریزی استعمار کی جانب سے قیدوبند اور زیادتیاں تو سمجھ میں آنے والے ہے مگر اسلام کے نام پر بننے والیملک میں قید وبند اور مشکلات سمجھ سے بالاتر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد استعماری پالیسیاں زیادہ مضبوط ہوئی۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد باچاخان نے ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی بات کی اور اس بات پر اسرار کرتے رہے کہ ملک کے دولخت ہونے کے بعد اب قوموں کو آزادی اور خودمختاری دینے پڑیگی۔ پاکستان کے آئین میں لکھنے کی حد تک تو بہت کچھ ہے لیکن عملدرآمد نہیں۔ جیسے کہ آئین تھوڑنے والوں کی سزا موت ہے لیکن یہ آئین نہ مارشلاوں سے ملک کو محفوظ رکھ سکا اور نہ ہی قوموں کی خودمختیاری کو یقینی بنا سکا۔

پاکستان میں اس وقت دو اہم مسائل ہیں عوام کی حاکمیت اور قوموں کی حق ملکیت اورخودمختیاری۔ پاکستان ایک فیڈریشن کیباوجود اس میں اپنی تاریخی زمینوں پر آباد قومیں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور قوموں کی تشخص اور ثقافت کو مسخ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ پنجاب کی مقتدر قوتوں نے انگریزوں کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے ہماری سرزمین اور وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس ملک کے اداروں جس میں فوج و انٹیلیجنس ، عدلیہ، میڈیا اور دیگر کو قوموں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔

یہ ادارے ریاستی دہشتگردی اور فرقہ واریت میں شامل ہے ۔ 80 کی دہائی میں مدرسے قائم کئے گئے اور جہاد کے نام پر لوگوں کو تربیت دی گئی اور انکو افغانستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ 1992 کے بعد طالبان وجود میں لائے گئے دنیا بھر کی دہشتگردوں کو پشتون خطے میں پناہ دی گئی اور ان کو ہر قسم کی ظلم و بربریت کا اختیار دیا گیا۔ ان سب اقدامات کا اعتراف پاکستانی جرنیلوں نے کیا ہے ۔

ہمارے اکابرین نے پہلے دن سے یہ کہا تھا کہ افغانستان پر مسلط جنگ کے اثرات وہاں تک محدود نہیں رہینگے بلکہ اس سے پورا خطہ متاثر ہوگا۔ مالاکنڈ ڈویژن اور سابقہ فاٹا میں عوام پر دہشتگردی مسلط کرکے ہزاروں لوگ شہید و لاپتہ اورلاکھوں بیگھر کر دئیے گئے اور آج بلوچوں اور سندھیوں بھی یہی سزا دی جارہی ہے۔ ہزارہ برادری کی نسل کشی جاری ہے۔ اس ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ محکوم قوموں کے حقوق سے انکار اور تحفظ نہ ہونا ہے۔

انکے مفادات کی بات نہیں کی جارہی ہے۔ پشتون قوم اس سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ جب ہم پر دہشتگردی مسلط تھی اور ہمارے گھروں اور کاروباری مراکز کو مسمار کیا جارہا تھا تو تحریکیں کیوں نہیں بنائیں گئیں اور اسکے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی اس وقت پاکستان کو نئے آئین کی تشکیل کی ضرورت ہے اور نئے سرے سے فطری صوبے بننے چاہیے۔بولان سے چترال بشمول اٹک ومیانوالی کا پشتون صوبہ ہمارا حق ہے۔

افغانستان میں آج بھی پراکسیز کو مسلط کر دیا گیا ہے اور انکے زریعے تمام اداروں کو ختم کردیا گیا ہے ۔ ان اقدامات اور عملیات کی وجہ سے آج یہ ملک دیوالیہ ہوگیا ہے ۔ ملک میں حکمرانی کا یہ حال ہے کہ علی وزیر کو فوج کی مرضی پر پابند سلاسل کیا گیا ہے اور حکومت مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے سروں کو کاٹ کر اسکے پہاڑ بھی بنائے جائے تو ہم انگریز کی طرح ہر استعمار کا غرور خاک میں ملا دیں گی