Live Updates

ّاراکین اسمبلی کا خواتین کی انتخابی شرکت بہتر بنانے کے لیے قانونی اصلاحات کا مطالبہ

منگل 7 مارچ 2023 22:10

*!اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 مارچ2023ء) قومی و سندھ اسمبلی کی خواتین اراکین نے انتخابی قانون اور ضوابط میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے تا کہ خواتین کی قومی زندگی میں بھرپور شرکت کے ا?ئینی تقاضے کو پورا کرنے کی جانب پیش رفت ہوسکے۔ حکومتی و حزب اختلاف کی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ، پاکستان مسلم لیگ نواز، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، متحدہ مجلس عمل اور تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے انتخابی اصلاحات سے متعلق اس عدیم النظیر اتفاقِ رائے کا اظہار ایک تربیتی ورکشا پ کے دوران کیا جس کا اہتمام ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن و اکاؤنٹبلٹی ( ٹی ڈی ای ای) نے کیا تھا۔

ان تربیتی ورکشاپس میں قومی اسمبلی کی 11اراکین بشمول غزالہ سیفی، منورہ بی بی بلوچ، نفیسہ عنایت اللہ، نصرت واحد، سائرہ بانو، شاہین سیف اللہ، شہناز سلیم، شاہدہ اختر علی، صائمہ ندیم، عظمیٰ ریاض ،ظل ہما اور سندھ اسمبلی کی 12 اراکین بشمول غزالہ سیال، ہیر سوہو، حنا دستگیر، نسیم راجپر، شاہانہ اشعر، رابعہ خاتون، سیما ضیائ ، ثروت فاطمہ، شازیہ عمر اور تنزیلہ ام حبیبہ نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

مخصوص نشستوں پر کامیاب خواتین کو عام نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لیے منعقدہ اس تربیتی نشست کے شرکا سے فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کی چیئرپرسن مسرت قدیم اور ٹی ڈی ای اے ٹرسٹی ڈاکٹر انوش خان نیبھی خطاب کیا۔خواتین اراکین اسمبلی نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت ایماندارانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو فعال طور پر استعمال کرے۔

انہوں نے پارلیمان کی توجہ انتخابی فہرستوں میں ایک کروڑ سے زائد کے صنفی فرق کی طرف مبذول کراتے ہوئے زور دیا کہ قومی شناختی کارڈ سے محروم خواتین کو آئندہ عام انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کے قابل بنایا جانا چاہئیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخابی فہرستوں کی تیاری کا اختیار فراہم کیا جائے تا کہ وہ مردم شماری کے اعداد و شمار کی مدد سے ایسی تمام غیر رجسٹرڈ خواتین کی انتخابی فہرست تیار کرسکے جو اٹھارہ سال سے زائد عمر کی ہیں۔

انہوں نے ایک اور تجویز پیش کی کہ انتخابی قانون میں ترمیم کے ذریعے مشترکہ پولنگ اسٹیشنوں پر خواتین اور مردوں کے ووٹوں کی علیحدہ علیحدہ گنتی کی جائے تا کہ خواتین کے سیاسی و انتخابی رویوں کی بابت مستند معلومات حاصل ہوسکیں۔ اس وقت عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کے انتخابی رویے مردوں کے انتخابی رویوں کے تابع ہوتے ہیں۔ انہوں نیاس بات پر بھی زور دیا کہ گنتی کے فارموں میں نامکمل اور غلط معلومات کے اندراج پر پولنگ عملے کو قانونی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئیے۔

مزید برا?ں، انہوں نے ریٹرننگ افسران کے ان صوابدیدی اختیارات کے خاتمے پر زور دیا جن کے تحت وہ دوبارہ گنتی کی درخواستوں کو رد کرسکتے ہیں نیز ریٹرننگ افسران کو حاصل ایسے استثنائی اختیارات بھی محدود کیے جانے چاہئیں جن کے تحت وہ استثنائی صورتوں میں ایک پولنگ اسٹیشن پر 1,200 سے زائد ووٹر تفویض کرسکتے ہیں یا ووٹر کو ایسا پولنگ اسٹیشن تفویض کرسکتے ہیں جو ان کی رہائش سے ایک کلومیٹر کی قانونی حد سے زائد فاصلے پر ہو۔

انہوں نے گنتی کے عمل کے بارے میں پولنگ ایجنٹوں کیتاثرات درج کرنے کے لیے الیکشن رولز، 2017 میں فارم-45 میں ترمیم کرنے کی تجویز بھی دی۔اراکین اسمبلی نے الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ایسے انتخابی علاقوں پر خصوصی نظر رکھے جہاں گذشتہ انتخابات میں خواتین کا ٹرن آؤٹ ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد کے دس فیصد سے کم تھا اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 9(2) کے تحت ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا ا?غاز کرے جو خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکتے ہیں۔

انہوں نے اس تجویز سے بھی اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن اپنے افسران اور انتخابی عملے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لیے اقدامات کرے اور یہ یقینی بنائے کہ پولنگ اسٹیشنوں کا ماحول ہر صنف اور ہر طبقے کے ووٹروں کے لیے سازگار ہو۔خواتین اراکین اسمبلی نے انتخابات میں پیسوں کے بے تحاشا استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے اور انتخابی اخراجات کی قانونی حد کی پاسداری کے لیے سخت ضوابط کی اہمیت پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے دوران چلائی جانی والی تشہیری مہم ، ووٹروں کو رشوت اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی پر اٹھنے والے غیرقانونی اخراجات کی وجہ سے خواتین عام نشستوں پر مردوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ عام نشستوں پر خواتین امیدواروں کی حوصلہ افزائی کے لیے الیکشنز ایکٹ 2017 میں ایسے اقدامات متعارف کرائے جائیں جن کے تحت سیاسی جماعتیں خواتین امیدواروں کی مہم پر اٹھنے والے قانونی اخراجات برداشت کریں۔ اسی طرح انہوں نے سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے اور فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کی نمائندگی بڑھانے کے لیے اقدامات متعارف کرانے پر بھی زور دیا۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات