پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختون خوا میں صحت کارڈ پر رجسٹرڈ 15 مختلف ہسپتالوں کو ڈی لسٹ کرنےکے خلاف دائر رٹ نمٹادی

جمعرات 4 مئی 2023 23:27

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 مئی2023ء) پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے خیبر پختون خوا میں صحت کارڈ پر رجسٹرڈ 15 مختلف ہسپتالوں کو ڈی لسٹ کرنےکے خلاف دائر رٹ پر سیکرٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 15 دن کے اندر اندر عدالتی احکامات پر بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کو فافذ کریں اور رٹ نمٹا دی۔

فاضل بنچ نے یہ احکامات گزشتہ روز پرائیویٹ سیکٹر کے 15 مختلف ہسپتالوں کی جانب سے دائر رٹ کی سماعت کے دوران جاری کئے ۔دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو دوران خیبر ہسپتال مردان، سو نیئر ہسپتال پشاور سمیت دیگر ہسپتالوں کے وکیل بیرسٹر مسعود کوثر نے عدالت کو بتایا کہ مذکوہ ہسپتال صحت کارڈ پر اسٹیٹ لائف کے ساتھ رجسٹرڈ تھے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں رش کی وجہ سے صحت سہولت کارڈ کی سہولت نجی ہسپتالوں تک توسیع دی گئی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں مذکورہ ہسپتال کئی سالوں سے کام کررہے تھے تاہم بعد میں مختلف نوعیت کے غلط شکایات پر ان ہسپتالوں کو ڈی لسٹ کردیا گیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے عدالت کوبتایا کہ اس ضمن میں مذکورہ ہسپتالوں نے ان کے خلاف درج شکایات کی معلومات حاصل کی تو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی اس ضمن میں ان کے خلاف کسی نے شکایت کی تھی تاہم غلط انکوائریوں کی وجہ سے ان ہسپتالوں کو لسٹ سے نکال دیا گیا انہوں نے عدالت کوبتایا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ ان ہسپتالوں کو ڈی لسٹ کرے کیونکہ یہ اختیار اس کا ہے جو سہولت فراہم کررہے ہیں اور سہولت فراہم کرنا محکمہ صحت کا کام ہے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں بعد میں ایک انکوائری کمیٹی بنائی جنہوں نے ان ہسپتالوں کو تفصیلی دورہ کیا اور اپنی رپورٹ مرتب کی رپورٹ میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ جو معیار انہوں نے صحت کارڈ کے لئے مقرر کی تھی ان ہسپتالوں کا معیار اس سے کہیں بہتر ہے مگر اس کے باوجود ان کی لسٹنگ دوربارہ نہیں کی جارہی جس سے ان کو شدید مالی نقصانات کا خدشہ ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایک طرف اگر درخواست گزار ہسپتالوں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب مریضوں کو بھی صحت سہولت کارڈ سے مستفید ہونے کا موقع نہیں دیا جارہا دوران سماعت عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ میں پہلے ہی اس نوعیت کی ایک درخواست دائر کی گئی تھی اور اسی درخواست پر جو انکوائری کمیٹی بنائی گئی اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل ہی نہیں ہو رہا جو کہ درست نہیں جس پر عدالت نے سیکرٹری صحت کو 15 یوم کے اندر اندر عدالتی حکم پر بنائی گئی ہائی لیول کمیٹی کی سفارشات نافذ کرنے کا حکم جاری کردیا اور رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔