کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز، مسیحا انسانی زندگیوں سے کھیلنے لگے

انجیوگرافی مشین خراب ہونے کے باوجود ایک کروڑ کے اسٹنٹ خریدلئے /اسٹنٹ 45لاکھ روپے کے خریدے ہیں، ڈائریکٹر کے آئی ایچ ڈی

بدھ 26 جولائی 2023 18:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جولائی2023ء) کے ایم سی کے زیرانتظام فیڈرل بی ایریا میں واقع امراض قلب کے ادارے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز(کے آئی ایچ ڈی) میں مسیحا زندگی بچانے کے بجائے انسانی جانوں سے کھیلنے لگے مبینہ کک بیک وصول کرکے خرید ے گئے زکوة فنڈ سے زائد قیمت پر ایک کروڑ روپے مالیت کے چائنا کے اسٹنٹ ٹھکانے لگانے کیلیے یو پی ایس بیک اپ کے بغیر انجیو پلاسٹی کی جارہی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے دور میں قائم ہو کر انسانی زندگی بچانے والا ادارہ میئر مرتضی وہاب کے دور میں اب زندگیاں خطرے میں ڈال رہا ہے ذرائع کے مطابق کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کو ضلعی زکوة فنڈ سے ملنے والے ایک کروڑ روپے سے مبینہ طور پر کمیشن حاصل کرکے مہنگے چائنیز اسٹنٹ خرید لیے گئے اس ضمن میں اسپتال کی سوشل ویلفیئر آفیسر شائستہ حیدر سے استفسارکیا گیا تو انہوں نے کہاکہ یہ درست ہے کہ زکو ة سے اسٹنٹ خریدے گئے لیکن اس میں معیوب بات کیا ہے ڈھائی برس سے زکوة فنڈ کے پیسے استعمال نہیں ہورہے تھے اسپتال میں چھ ماہ کے دوران پچاس لاکھ روپے استعمال کرنے ہوتے ہیں جو نہیں ہوسکے،اس لیے انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر رفعت سلطانہ نے فوری طور پر کمیٹی بنائی جس میں اکثر لوگ باہر کے تھے انہوں نے منظوری دی ہے انسٹی ٹیوٹ میں کوئی کام قواعد ضوابط کے خلاف نہیں ہوتا ان سے جب سوال کیا گیاکہ ڈریپ نے خریدے گئے فائرہاک (اسٹنٹ) کی قیمت تریسٹھ ہزار دو سو پانچ روپے مختص کی ہے تو یہ نوے ہزار میں کیوں خریدا گیا تو شائستہ حیدر کا کہنا تھاکہ وہ اس ضمن میں کچھ بھی کہنے سے معذور ہیں کیونکہ یہ سارے معاملات ڈائریکٹر رفعت سلطانہ دیکھتی ہیں تاہم مزید سوالوں پرانہوں نے کہاکہ انسٹی ٹیوٹ میں کوئی پروکیورمنٹ کا شعبہ نہیں ہے البتہ پرچیز کمیٹی ہے جو ڈائریکٹر کی نگرانی میں کام کرتی ہے جس نے سرکا ری طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے اسٹنٹ خریدے ہیں۔

(جاری ہے)

آپریشن تھیٹر میں موجود ذرائع کے مطابق کیتھ لیب کے لئے یو پی ایس کا بیک اپ نہیں ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسپتال میں انجیوگرافی کی پانچ مشینیں ہیں جن میں سے چار خراب ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف ایک مشین پر کام ہو رہا ہے جس میں یو پی ایس بیک اپ کی سہولت بھی نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اسٹنٹ کی خریداری پر 3 ملین کمیشن کھرا کیا گیا ہے جو مختلف سطحوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔

انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کرنے والے بعض ماہرین کے سامنے جب صورتحال رکھی گئی تو انہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یوپی ایس بیک اپ نہ ہونے کی صورت میں دوران آپریشن بجلی جانے سے انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ بجلی جائے تو اس پروسیجر میں بعض مراحل ایسے ہوتے ہیں کی چند سیکنڈ میں انسانی جان ضائع ہو سکتی ہے۔ جہاں بھی انجیو پلاسٹی کی جاتی ہے وہاں یوپی ایس بیک اپ ضروری ہے۔

جنریٹر اسٹارٹ ہونے اور سپلائی دینے میں ایک دو منٹ کا توقف کرسکتا ہے۔ کے آئی ایچ ڈی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ زکو سے ناقص اسٹنٹ کی خریداری صرف کمیشن کی خاطر کی گئی ہے۔ مشین خراب ہونے کے باعث صرف دو اسٹنٹ ڈالے جاسکے ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ یہ ناقص اسٹنٹ میعاد کی مدت پوری ہونے تک بھی استعمال نہیں ہو سکیں گے اور زائد المیعاد ہونے کے باعث ضائع کردیئے جائیں گے۔

زکو سے اسٹنٹ کی خریداری، مشینوں کی خرابی اور ان سے متعلق سوال ڈائریکٹر رفعت سلطانہ کے سامنے رکھے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ زکو سے ایک کروڑ روپے کے اسٹنٹ نہیں خریدے گئے صرف 45 لاکھ کے 110 اسٹنٹ خریدے گئے ہیں۔ جس کے مطابق لگ بھگ 41 ہزار روپے فی اسٹنٹ لاگت آئی ہے جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق فائر ہاک کی قیمت 63 ہزار 205 روپے مختص کی گئی ہے۔

ڈاکٹر رفعت سلطانہ نے بتایا کہ 50 لاکھ روپے کے زکو فنڈ سے دوائیں خریدی جانی تھیں ٹینڈر دینے کے باوجود بولی دہندگان دواساز ادارے نہیں آسکے اس طرح 50 لاکھ روپے کا زکو فنڈ واپس ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط ہے کہ ہماری مشینیں خراب ہیں۔ میں پہلی تاریخ سے اب تک 100 سے زائد انجیوگرافی اور انجیو پلاسٹی کرچکی ہوں، ہماری ایک مشین پہلے ہی ٹھیک تھی۔

دوسری حال ہی میں ٹھیک ہوئی ہے۔ تیسری ٹھیک ہونے کے مرحلے میں ہے، جلد ہی ورکنگ میں آجائے گی۔ صرف 2 کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ خراب ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ گزشتہ ڈھائی برس کے دوران ڈھائی کروڑ روپے ضائع ہوچکے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ پیسے ہمیں اخراجات کی مد بتائے بغیر نہیں ملتے۔ اس لئے انہوں نے اس مرتبہ 45 لاکھ روپے کے اسٹنٹ خرید لئے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر رفعت سلطانہ کا تقرر 21 اپریل 2021 کو بطور ڈائریکٹر ہوا تھا۔ زکو کے فنڈز اس عرصے کے دوران ہی ضائع ہوئے تھے۔ کے آئی ایچ ڈی کے ذرائع کے مطابق ضائع ہونے والی رقم سے خراب مشینوں کی مرمت، دواں کی خریداری، ائر کنڈیشن سسٹم کی بحالی سمیت مریضوں کی دیگر سہولتوں کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن زکو کا استعمال کمیشن کی خاطر ناقص اسٹنٹ خریدنے پر کیا گیا۔