گوادر بندرگاہ پر براہ راست کارگو لانے کی کوششیں شروع نہیں کی جاسکیں

اربوں کا ڈیزل جلانے کے بجائے بندرگاہ کو آپریشنل رکھنے کیلئے کہ کارگو آنا چاہیئے ،کارگو ٹرانسپورٹرز

پیر 20 نومبر 2023 19:57

گوادر بندرگاہ پر براہ راست کارگو لانے کی کوششیں شروع نہیں کی جاسکیں
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 نومبر2023ء) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی جانب سے گوادر بندرگاہ مستقبل قریب میں سمندری راستے سے تجارت کا ایک بڑا مرکزبنانے اور گوادر بندرگاہ میں صنعتوں کے قیام اور صنعتی علاقوں سے مواصلاتی روابط کی بہتری کیلئے اقدامات کے اعلان کے باوجود گوادر بندرگاہ کو فعال اور منافع بخش بنانے اوربندرگاہ پر براہ راست کارگو لانے کی کوششیں شروع نہیں کی جاسکی ہیں۔

چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی گوادر بندرگاہ پ کی مدد کیلئے شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں کی جانے والی کوششیں بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکیں اور بلاوجہ کراچی اور قاسم بندرگاہ کا کارگوٹریفک گوادر بندرگاہ کی جانب موڑ کرسرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔

(جاری ہے)

کارگو ٹرانسپورٹرز سیکٹر کا کہنا ہے کہ بندرگاہ کو آپریشنل رہنے کیلئے ضروری ہے کہ کارگو آنا چاہیئے جبکہ دوسری جانب حکومت نے کراچی بندرگاہ اور قاسم بندرگاہ سے جو کارگو گوادر پورٹ منتقل کیا گیا تھا وہ فائدے کے بجائے نقصان میں رہا کیونکہ کراچی سے گوادر کارگو منتقل ہونے سے 3 ارب روپے سے زائد اضافی ڈیزل جلایا گیا اور نقصان حکومت کواٹھانا پڑا۔

کارگو ٹرانسپورٹرسیکٹر کے مطابق میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم پر آنے والی یوریا کھاد(فرٹیلائزر) اورسرکاری گندم گوادر پورٹ منتقل کی گئی تاکہ گوادر پورٹ کو کسی حد تک آپریشنل کیا جاسکے مگرکراچی سے گوادراور گوادر سے کراچی آمد ورفت پر مجموعی طور سے 1500کلو میٹر ڈیزل کا تقریباً3ارب روپے سے زائد کا اضافی خرچ حکومت کو برداشت کرنا پڑا اس کے باوجود گوادر پورٹ پر کارگو کی آمد ورفت مستقل بنیادوں پر نہ ہوسکی۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ حکومت میں یوریا کھاد کے 3 جہازوں کو گوادر کی طرف موڑ دیا گیا، ایم وی الٹرا ایسٹر ہازی 32,394 میٹرک ٹن 29 دسمبر2022 کو گوادر پورٹ پر برتھ پر لنگرانداز ہوا جبکہ ایم وی نارڈ سنڈا 31,500 میٹرک ٹن 1 جنوری 2023 کو گوادر پورٹ پر برتھڈ ہوا۔ اسی طرح ایم وی کنگ ون 30,900 میٹرک ٹن 9 جنوری2023 کو گوادر پورٹ پر برتھڈ ہوا ان تینوں جہازوں پر مجموعی طور سے 94,794 میٹرک ٹن کارگو تھا۔

ذرائع کے مطابق گوادر سے کراچی تک ٹرانسپورٹ کی مد میں فی میٹرک ٹن 5500روپے سی7000 روپے تک تھی اور اس طرح 94,794 میٹرک ٹن پر 473ملین سی315ملین روپے تک کی اضافی لاگت آئی اور یہ اضافی نقل و حمل کی قیمت نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ (NFML) نے ادا کی تاہم بعض اوقات ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے ٹرانسپورٹیشن لاگت میں اضافہ بھی ہوا۔ اس کے علاوہ گورئمنٹ ٹو گورئمنٹ (جی ٹو جی) مد میں روس سے آنے والے 4لاکھ50ہزار میٹرک ٹن گندم کے بھی کئی جہاز گوادر پورٹ کی جانب موڑ ے گئے لیکن ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے مزید اضافی اخراجات حکومت کے ہی کھاتے میں گئے۔

گوادر پورٹ کراچی سے تقریباً 750 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کارگو کے لیے زیادہ تر ٹرانسپورٹ کراچی سے گوادر جاتی ہے لہٰذا 2 راستہ 1,500 کلومیٹر اضافی ہے۔ذرائع کے مطابق گندم سمیت دیگر کارگو کو کراچی سے گوادر منتقل ہونے سے مجموعی طور پر تقریباً5ارب روپے کے اضافی اخراجات سابق حکومت کو برداشت کرنے پڑے تھے جبکہ دوسری جانب تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی سے گوادر کارگو منتقل ہونے اور واپس کراچی لانے سے کاروباری حلقوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔

انکا کہنا تھا کہ اگر کارگو کراچی ہی رہنے دیا جاتا اور بیرون ممالک سے کارگو براہ راست گوادر منگوایا جاتا تو حکومت کے خرچ ہونے والے اضافہ اربوں روپے گوادر میں مقامی لوگوں کے لیے مناسب ہسپتالوں اور پینے کے پانی کی کی فراہمی پر خرچ کئے جاسکتے تھے۔کارگو ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ حکومت عوامی فنڈز کو ڈیزل میں جلانے کے بجائے گوادر کے غریب عوام کے لئے کچھ طویل المدتی فوائد فراہم کرنا بہتر ہوگا۔ واضح رہے کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے جوجدوجہد کر رہا ہے یہی رقم پاکستان کے کام آسکتی تھی اس لئے کہ گوادر سے نقل و حمل کی مد میں اضافی لاگت تقریباً 11.7 ملین امریکی ڈالررہی ہوگی جو آئی ایم ایف کے قرض کے تقریباً 1 فیصد کے برابر ہی