سپریم کورٹ میں سابق صدرپرویزمشرف کی اپیلوں پر سماعت، جسٹس اطہرمن اللہ نے کئی اہم آئینی و قانونی نکات اٹھا دیئے

منگل 21 نومبر 2023 17:55

سپریم کورٹ میں سابق صدرپرویزمشرف کی اپیلوں پر سماعت، جسٹس اطہرمن اللہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 نومبر2023ء) سپریم کورٹ میں سابق صدرپرویزمشر ف کی اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے کئی اہم آئینی وقانونی نکات اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ میری ذاتی رائے میں پرویز مشرف کی سزا والا فیصلہ موجود ہے، معطل نہیں ہوا، پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی صورت میں ان کی پنشنز اور مراعات کا معاملہ اٹھے گا۔

جبکہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاہے کہ عدالت نے اب غیر ضروری التواء دینابندکردیاہے ،ہم آپ کوالتواء دے رہے ہیں لیکن یہ ہم خوشی سے نہیں دے رہے ہیں۔انھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روزدیے ہیں سماعت آج بدھ کوبھی جاری رہے گی۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی کی سربراہی میں خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔،اس دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی نے کہاکہ اپیلوں میں دلچسپی نہیں تو ہم خارج کردیں گے،سلمان صفدر نے کہاکہ میں ان اپیلوں کی پیروی نہیں کرنا چاہتا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ ایک مجسٹریٹ والا برتاو نہ کریں ،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سلمان صفدر صاحب فیصلے کے مستقبل کی نسلوں پراثرات ہوں گے،پرویز مشرف کی پنشن اور دیگر مراعات بھی متاثر ہوں گی،جسٹس قاضی فائز نے مکالمہ کیا کہ یہ کوئی سول کیس نہیں کہ آپ کو ہدایات درکار ہوں، یہ کرمنل اپیل ہے جس کے عدم پیروی پرخارج ہونے سے منفی تاثر جائیگا، اس عدالت نے اب وقت دینا چھوڑ دیا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں پرویز مشرف کی سزا والا فیصلہ موجود ہے، معطل نہیں ہوا، پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی صورت میں ان کی پنشنز اور مراعات کا معاملہ اٹھے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز نے سلمان صفدر سے کہا کہ عدالت کی سزا ختم ہونے والے معاملے پرمعاونت کریں، کیا خصوصی عدالت پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہی چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ امید ہے آپ مائنڈ نہیں کریں گے لیکن ہمیں آپ سے یہ توقع نہیں تھی، اگرآپ دستیاب نہیں تھے تو التوا کی درخواست دے دیتے، 4 سال بعد اپیل لگی تو آپ التو مانگ رہے ہیں، اس پر وکیل پرویز مشرف نے کہا مجھے صرف ایک ہفتے کی مہلت چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آئندہ سماعت پرپرویزمشرف کے ورثا خود پیش ہوں یا بیان حلفی جمع کروائیں۔عدالت نے سلمان صفدرکو پرویز مشرف کے ورثا کے ایڈریس اورفون نمبر دینے کی ہدایت کی اس پر سلمان صدر نے بتایا کہ مشرف کی بیوہ صہبا مشرف اور بیٹا بلال مشرف دبئی میں مقیم ہیں، ان کی صاحبزادی کراچی میں مقیم ہے، ان سے کوئی رابطہ نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو دیگر فیملی ممبران سے صاحبزادی کا ایڈریس اور فون نمبرلیکردیا جائے، عدالت پرویز مشرف کے ورثا کو واٹس ایپ پر بھی نوٹس بھجوا دے گی، آپ التوا پر زور دے رہے ہیں تو ہم ملتوی کردیں گے لیکن ہم یہ التوا خوشی سے نہیں دیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے سلمان صفدرکو پرویزمشرف کے اہلخانہ سے ہدایات لینے کیلئے مہلت دے دی۔سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی حیثیت سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران اپیل کی پیروی کیلئے سینئر وکیل حامد خان پیش ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وفاقی حکومت لاہور ہائیکورٹ فیصلے کی حمایت نہیں کرتی،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ فیصلے کے خلاف اس اپیل کی حمایت کرتے ہیں،اے اے جی نے کہاکہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی قبول ہو گا،اپیل کی حمایت کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع تو نہیں کر رہے نا اے اے جی نے کہاکہ ہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دفاع بھی نہیں کر رہے،اسکے بعدلاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف حامد خان نے دلائل کا آغازکیا،عدالت نے حامد خان کو دلائل لاہور ہائیکورٹ فیصلے تک محدود رکھنے کی ہدایت کی ،حامد خان نے سنگین غداری کیس کا پس منظر اور حقائق ریکارڈ کروا دیے اور کہاکہ خصوصی عدالت نے شروع میں ہی ایک آڈر دیا تھا، زاہد حامد ،شوکت عزیز اور عبدالحمید ڈوگر کیلئے کہا گیا ان کو اس کیس میں فریق ہونا چاہیے تھا،سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کا یہ آڈر کالعدم قرار دیا تھا،اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ حامد خان صاحب آپ نے جص فیصلہ چیلنج کیا ہے وہ مصطفی ایمپیکس کی بنیاد پر لکھا گیا،مصطفی ایمپیکس کیس کا فیصلہ کس تاریخ کا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ سوال نوٹ کر لیں جواب بعد میں دینا چاہیں تو دے دیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ مصطفی ایمپیکس فیصلہ آنے کے بعد خصوصی عدالت کی کتنی بار تشکیل نو ہوئی،کیا وہ تشکیل نو مصطفی ایمپیکس سے متابقت رکھتی تھی یا نہیں، لاہور ہائیکورٹ کے دائر اختیار پر بتائیں،لاہور ہائیکورٹ میں درخواست کب دائر ہوئی،جسٹس اطہر من اللہ کا استفسارکیا،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے یا نہیں،ہائیکورٹ نے اس کیس میں سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف کیسے لکھا،کیا اس سے پہلے ایسی جوئی نظیر موجود ہے،ہائیکورٹ کے جج نے لکھ دیا ان کی رائے میں سپریم کورٹ نے آئین کی درست تشریح نہیں کی،ہائیکورٹ کی یہ رائے درست بھی ہو تو کیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے جو رد کر سکتی ہی حامد خان صاحب کیا آپ نے کبھی زندگی میں ایسی مثال دیکھی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ہائیکورٹ نے مصطفی ایمپیکس کی بنیاد پر ایسا کیا،ہائیکورٹ نے مصطفی ایمپیکس کیس کا اطلاق غلط کیا،سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ مصطفی ایمپیکس کا ماضی سے اطلاق نہیں ہو سکتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ خصوصی عدالت کا فیصلہ سنا دینے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی غیر موثر ہو چکی تھی،جسٹس اطہر نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے،حامدخان نے کہاکہ پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کا اختیار نہیں غیر حاضری میں ٹرائل کو چیلنج کیا تھا۔

بعدازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے پرویز مشرف کی اپیل کی حد تک حکمنامہ لکھوادیاجس میں کہاگیاہے کہ سلمان صفدر کو پرویز مشرف کے ورثا سے رابطے اور ہدایات کی مہلت دی جاتی ہے،وکیل سلمان صفدر کو پرویز مشرف کے ورثا کے رابطہ نمبر بھی فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے۔بعدازاں سماعت آج بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی حامدخان ایڈووکیٹ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔