کرہ ارض پر نصف آبادی کی ووٹنگ‘2024میں ہونے والے انتخابات کے دنیا پر گہرے سیاسی و معاشی اثرات

یورپی پارلیمنٹ‘ امریکا‘روس‘پاکستان‘بنگلہ دیش ‘سری لنکا اوربھارت سمیت30ممالک کے انتخابات میں ”ڈس انفارمیشن“اہم ترین مسلہ رہے گا.مبصرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 5 دسمبر 2023 13:54

کرہ ارض  پر نصف آبادی کی ووٹنگ‘2024میں ہونے والے انتخابات کے دنیا پر ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 دسمبر۔2023 ) سال2024سیاسی لحاظ سے دنیا میں اہم ترین سال ہوگا جس میں یورپی پارلیمنٹ‘ امریکا‘روس‘پاکستان‘بنگلہ دیش ‘سری لنکا اوربھارت سمیت دنیا کے30ممالک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جن میں دنیا کی نصف سے زائد آبادی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے گی.

(جاری ہے)

آئندہ سال ہونے والے انتخابات نہ صرف ان ممالک کے لیے اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ان میں سے بعض ممالک کے الیکشن کے نتائج کو عالمی سیاست کے لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے سیاسی مبصرین کی نظریں آئندہ برس ہونے والے انتخابات پر جمی ہیں پانچ نومبر 2024 کو کروڑوں امریکی رائے دہندگان فیصلہ کریں گے کہ صدر جو بائیڈن اپنے عہدے پر برقرار رہیں گا یا ان کی جگہ کسی اور صدر کا انتخاب ہو گا.

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدارتی الیکشن کے لیے ہونے والی مہم میں غلط معلومات کا پھیلاﺅ یا ”ڈس انفارمیشن‘ ‘ایک اہم مسئلہ رہے گا گزشتہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا اس واقعے کو بھی انتخابی عمل سے متعلق غلط معلومات کے پھیلاﺅکا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے. سابق صدر ٹرمپ کو مختلف فوجداری مقدمات کا سامنا ہے تاہم وہ ری پبلکن پارٹی میں صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے مضبوط ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں دوسری جانب ولادیمیر پوٹن گزشتہ 23 برس سے روس میں حکمراں ہیں سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کے صدر بننے والے بورس یلسن سے انہیں 1999 میں اقتدار منتقل ہوا تھا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے وہ آئندہ برس مارچ میں ہونے والے صدارتی الیکشن لڑیں گے مبصرین کے مطابق سال 2020 میں انہوں نے آئین میں ایک ایسی ترمیم کرالی تھی جس کی بنیاد پر وہ 2036 تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں اس ترمیم کے نتیجے میں وہ چھ، چھ برس کی دو صدارتی مدت کے لیے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں.

پوٹن دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں وہ روس پر جوزف اسٹالن سے بھی طویل عرصے تک حکومت کرنے والے حکمراں بن جائیں گے. بھارت کے لگ بھگ ایک ارب رائے دہندگان اپریل اور مئی کے دوران جاری رہنے والے قومی انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں ہونے والے انتخابات کو دنیا کی سب سے بڑی انتخابی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے سال 2024 کے انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری بار مرکزی حکومت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو گی.

مودی کا سیاسی کرئیر اور کامیابی کو بھارت کے انتہا پسند ہندوﺅں سے حاصل ہونے والی حمایت کا مرہونِ منت قرار دیا جاتا ہے ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں سے ہندوﺅں کے اختلافات کو ہوا دے کر سیاسی کامیابی حاصل کی ہے‘نریندر مودی پر شہری آزادیوں کے خلاف اقدامات اور حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف کارکنوں پر کریک ڈاﺅن کرنے جیسے الزامات بھی ہیں.

انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے کے لیے بھارت کی 26 اپوزیشن پارٹیوں نے ”انڈیا“ کے نام سے اتحاد بنایا ہے اس اتحاد میں انڈین نیشنل کانگریس نمایاں ترین سیاسی جماعت ہے جبکہ بھارت کی ریاستوں اور خطوں میں سیاسی حمایت رکھنے والی جماعتیں بھی اس کا حصہ ہیں. سال 2024 جنوبی ایشیا میں انتخابات کے لیے حوالے سے اس لیے بھی اہم ہے کے اس میں خطے کے چار ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں انتخابات ہونے والے ہیں یورپی اقوام کی پارلیمنٹ کے انتخابات کو دنیا میں مختلف ملکوں تک پھیلا سب سے بڑا انتخابی عمل کہا جاتا ہے آئندہ برس جون میں یورپی یونین میں شامل 27 ممالک کے تقریباً 40 کروڑ رائے دہندگان یورپی پارلیمنٹ کے 720 ارکان کا انتخاب کریں گے منتخب ہونے والے نمائندے خطے کے ان ممالک میں موبائل فون رومنگ کے چارجز سے لے کر آن لائن ڈیٹا کی راز داری یا پرائیویسی سے متعلق کئی اہم امور کے بارے میں پالیسی سازی کرتے ہیں.

یورپی یونین کے آئندہ الیکشن ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب یورپ میں دائیں بازو کے نظریات کے حامل راہنماﺅں اور جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور انہیں اپنے ممالک میں انتخابی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں حال ہی میں نیدرلینڈز کے انتخابات میں اسلام مخالف اور یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی انتہا پسندگیرت ولڈر کی جماعت نے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح گزشتہ برس اٹلی میں بھی انتہائی دائیں بازو کی ”برادرز آف اٹلی“ پارٹی نے الیکشن جیتا تھا جس کے بعد وہاں جیورجیا میلونی کی حکومت قائم ہوئی تھی گیرت ولڈرز کی کامیابی پر فرانس کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنما جورڈن برڈیلا نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا تھا کہ جون میں بھی یہ جاری رکھیںان کا اشارہ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات کی طرف تھامبصرین کے مطابق یورپ میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو تارکین وطن، معیشت اور یوکرین جنگ سے متعلق موقف کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے آئندہ انتخابات کو یورپی یونین کے لیے آزمائش قرار دیا جا رہا ہے.