ملک مسائل کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ 8 فروری کوالیکشن موخر نہیں ہونے چاہیے،اب اگر مگر سے کام نہیں چلے گا،راجہ پرویز اشرف

بدھ 6 دسمبر 2023 22:55

; فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 دسمبر2023ء) ا سپیکر قومی اسمبلی وسابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ ملک مسائل کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ 8 فروری کوالیکشن موخر نہیں ہونے چاہیے،اب اگر مگر سے کام نہیں چلے گاخلق خدا کی آواز کو سننا ہوگا۔ملک کا معاشی بحران اور بے لگام مہنگائی غریب عوام کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔

ملکی مسائل کا حل آزادانہ، غیرجانبدارانہ ومنصفانہ اور شفاف انتخابت میں ہے کیونکہ اگر کسی بھی جماعت نے ان پر تحفظات کا اظہار کیا تو ان کی افادیت برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔موجودہ حالات میں صاف ستھرے، پرامن وشفاف انتخابات کی فضا ہم سب کو مل کر قائم کر نی ہے اسلئے وہ تمام سیاسی جماعتیں جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ہماری ان سے گزارش ہوگی کہ ہمیں ایک ایسے انتخابات کے انعقاد کی کوشش کرنی چاہیے جو کسی لحاظ سے بھی متنازعہ نہ ہوں اور ایسے خوشگوار ماحول میں منعقد ہوں جہاں نفرتیں کم اور ماحول پرسکون وپرامن ہو۔

(جاری ہے)

آن لا ئن کے مطابق ان خیالات کا اظہار انھوں نے ضلعی صدر محمد اعجاز چوھدری کی رہائش گاہ سمندری روڈ فیصل آباد آمد کے موقع پرمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سابق وفاقی وزیر رانا فاروق سعید خان،صوبائی جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضی،رائے شہادت کھرل،ملک شمشیر وٹو،بلال فاروق سعید ودیگر امیدواران،ایم پی ایز،ایم این ایز و ٹکٹ ہولڈرز موجود تھے۔

راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عوام کے ووٹوں سے جمہوری حکومت منتخب ہوکر آئے گی تو وہ بہت بہتر انداز میں ملک کو ہر قسم کے بحرانوں سے نکال سکے گی۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہم سب کو چاہیے کہ ہم مل کر انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ، شفاف بنائیں تاکہ حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندہ حکومت معرض وجود میں آکر عوام کی خدمت کا عمل شروع کرسکے اور لوگوں کا جمہوریت و جمہوری اداروں پر اعتماد بھی بحال رہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ان انتخابات کے نتیجہ میں جس کی بھی اکثریتی حکومت بنے گی وہ نہ صرف صحیح معنوں میں نمائندہ حکومت ہوگی بلکہ ایسی نمائندہ حکومت ہوگی جونان کنٹروورشل ہوگی اور اس پرکوئی انگلی نہیں اٹھائے گا۔انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کی حامل وہ حکومت اس پوزیشن میں ہوگی کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز اور مشکلات سے نکالنے کیلئے ایسی قابل عمل شارٹ ٹرم و لانگ ٹرم پالیسیاں تشکیل دے جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوں اور ملک مسائل کی دلدل سے نکل کر خوشحالی کی شاہراہوں پر گامزن ہوسکے۔

راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ انتخابات کا مقصد آپس میں الجھنا نہیں اور نہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑھانے کی بات کرنی ہے تو اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کا مؤقف بڑا واضح ہے اوران کایہ دورہ اس لحاظ سے بھی بڑا اہم ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے لوگوں تک اپنا اور پارٹی کا مؤقف پہنچانے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس دورہ فیصل آباد میں انہیں اپنا پیغام پارٹی کے دوستوں،نوجوانوں، طلباو طالبات،کارکنوں اور ہم خیال دوستوں تک پہنچانے کا موقع بھی میسر آیااور انہیں بھی بتایا گیا کہ ان کاپیغام یہی ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ایسا ماحول بنانا ہے جس میں کسی کو کوئی شکایت نہ ہو اور یہ معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑ دینا چاہیے وہ جس کو بھی پسند کریں جس کو بھی ووٹ دینا چاہیں اس کو وہ کھل کر آزادی سے ووٹ دیکر کامیاب کریں کیونکہ اب وہی حکومت ڈلیور کرے گی جو پاکستان کی عوام کے ووٹوں سے ایک اچھے ماحول میں الیکٹ ہوکر آئے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانافضل الرحمن صاحب نے کہا کہ شاید انتخابات ڈیلے ہو جائیں گے لیکن اس میں آئین اور قانون سمیت تمام عوامل کو دیکھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ انتخابات ملتوی ہونے کی ذاتی رائے پرکسی کا سڑکوں پر ہونا یا نہ ہونا بعد کی بات ہے لیکن ان کی گزارش ہے کہ آئین میں جو آئینی سچوایشن ہے انتخابات کے حوالے سے وہ تو یہ ہے کہ90 دن کے اندر اندر ہمیں انتخابات کرانے ہوتے ہیں جبکہ آئین کی یہی پابندی ہے۔

انہوں نے انتخابی اتحادوں کے بارے میں کہا کہ انتخابی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں کیونکہ ہر سیاسی جماعت کا اپنااپنا منشور ہوتا ہے لیکن حتمی فیصلہ عوام کا ہی ہوتا ہت اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کو فیصلہ کرنے دیں۔راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے انتخابات میں تاخیر کی جو وجہ سامنے آئی تھی وہ یہ تھی کہ جس وقت مردم شماری ہوتی ہے تو پھر ڈی لیمیٹیشن کی ضرورت پیش آتی ہے جس کو آپ حلقہ بندیاں کہتے ہیں تو حلقہ بندیوں کی وجہ سے الیکشن ڈیلے ہوالیکن اب یہ عمل مکمل ہوگیا ہے اورالیکشن کمیشن نے اعلان کر دیاہے کہ 8 فروری کو انتخاب ہوں گے تو ان کا خیال ہے کہ اب الیکشن میں تاخیر کی نہ تو کوئی وجہ ہے نہ جواز جبکہ ایسا کرنا عوام کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے سمیت ملک کو مزید بحرانوں میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا نیز اب تو الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز بھی جاری ہوچکے ہیں تو ان کا خیال ہے کہ اب الیکشن میں کسی قسم کی تاخیر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے اسلئے اب بظاہر کوئی ایسی ٹھوس وجہ نہیں کہ انتخابات کو ملتوی کرنے کی بات کی جائے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابات کا بروقت ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اب ہمارے پاس الیکشن کروانے کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ محدود وقت کیلئے آنیوالی نگران حکومت بڑے اور لانگ ٹرم فیصلے نہیں کرسکتی اور نہ ہی وہ کوئی پالیسی سازی کرسکتی ہے تاوقتیکہ پارلیمنٹ مکمل نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ اس وقت قومی اسمبلی نہیں ہے اسلئے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی، وہاں پر ڈے ٹو ڈے مسائل ہیں یا اگر کوئی ہمارے ایشوز ہیں تو وہ پبلک ایشوز ہیں ان پر بحث نہیں ہو سکتی،نہ ہی کولیکٹو وزڈم آف دی نیشن بروئے کارجاسکتی ہے لہٰذااس کیلئے انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ ہیں جنہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ انتخابات کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب انتخابات نہ ہوں تو کوئی کسی طرف جارہا ہوتا ہے اور کوئی کسی طرف، لیکن جب انتخابات ہوتے ہیں تو وہ اور ہی ماحول ہاتا ہے جس میں پارٹیاں اپنا منشور بھی پیش کرتی ہیں اور اپنی کارکردگی بھی،اور پھر فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ہار جیت جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن اگر کوئی اس ڈر سے الیکشن نہ ہونے دے کہ وہ ہار جائے گا تو وہ سیاستدان ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب الیکشن ہوتے ہیں تو دو امیدواروں میں سے ایک نے جیتنا ہوتا ہے تاہم اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے پارٹیاں ایک دوسرے پر مثبت تنقید کرسکتی ہیں لیکن سیاست یا الیکشن کو زندگی موت کا مسئلہ بنالینا کسی صورت درست اقدام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی اور اس کی کوشش ہوگی کہ موزوں اور مضبوط و اچھی شہرت کے حامل امیدوار میدان میں اتارے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی پی پی پی بھرپور انتخابی مہم شروع کرے گی اور اس کے قائدین بھی بڑے شہروں کے دورے اور عوامی جلسوں سے خطاب کریں گے جس کی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم تحادایک ایسے وقت میں بنایاگیا جب ملک کے پاس بھی کوئی اور آپشن نہیں تھا، آپ کے علم میں ہے کہ اس وقت یہی واویلا تھا کہ ہمارا ملک ڈیفالٹ کرنے جا رہا ہے، ہماری اکانومی نوز ڈائیو کر چکی تھی، اکانومی بالکل ایسی سطح پر آ چکی تھی کہ جہاں پر تمام طرح کے خطرات منڈلا رہے تھے اس وقت جس جس جماعت نے میں سمجھتا ہوں اکٹھے ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت سیاست کو پس پشت ڈال کر ہمیں اپنے ملک کو بچانا ہے اپنی سٹیٹ کو بچانا ہے تو انہوں نے اس وقت بہت اچھا کام کیا اور یہ ایک اچھا تجربہ ہے کہ ملک کی خاطر ملکی مفاد کی خاطر ہم اکٹھے ہو کر کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں تو یہ ملک کی بھلائی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اتحاد تو بنتے رہتے ہیں الیکشن کے الائنسز بھی بنتے رہتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تو آئی جے آئی سے لے کے اب تک بہت سارے اتحاد بنے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جیتتا تو وہی ہے جس کو عوامی تائید حاصل ہوتی ہے جس کو عوامی حمایت حاصل ہوتی ہے اور جہاں تک آپ نے کہا ہے کہ کوئی پہلے ہی ڈکلیئر ہو جائے وزیراعظم تو نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، الیکشن سے پہلے کوئی کیسے وزیراعظم ہو سکتا ہے یا اس کو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی انتخابی ٹیکٹس کا ایک حصہ ہوتا ہے کہ اپنا ایک ماحول بنانا ہوتا ہے ایک پرسپشن کری ایٹ کرنی ہوتی ہے ایک تاثر دینا ہوتا ہے کہ ہم زیادہ ہیں ہم آ رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو تاثر دیا جا رہا ہے اس کا کسی کو فائدہ نقصان ہو یا نہ ہو پی ایم ایل این کو اس کا نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی کارکن کے طور پر میں سوچتا ہوں کہ شاید ان کے حق میں یہ بات نہیں جا رہی اور اس طرح کی جو باتیں کرتے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ وہ ان کی کل پی ایم ایل این کی کوئی لیڈرشپ نے یہ بات کی ہے ان کے جو بھی نمائندگان یہ بات کرتے ہیں وہ میں سمجھتا ہوں اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔۔