باجوڑ میں پولیس ٹرک کے قریب دھماکہ، پانچ اہلکار ہلاک

DW ڈی ڈبلیو پیر 8 جنوری 2024 14:40

باجوڑ میں پولیس ٹرک کے قریب دھماکہ، پانچ اہلکار ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جنوری 2024ء) پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختوانخوا میں آج پیر کے روز سڑک کنارے نصب ایک بم پھٹنے سےانسداد پولیو کی ٹیم کی حفاظت کے لیے تعینات کم از کم پانچ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ ضلع باجوڑ کے ایک سینیئر سرکاری اہلکار انوار الحق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ "پولیس کا ایک ٹرک تقریباً 25 پولیس اہلکاروں کو انسداد پولیو مہم کی ڈیوٹی کے لیے لے جا رہا تھا کہ اسے ایک آئی ای ڈی (دیسی ساختہ بم) کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔

"

انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں کم از کم پانچ پولیس اہلکار ہلاک اور کم از کم 20 دیگر زخمی ہوئے۔ ضلع کے ایک سینیئر پولیس افسر کاشف ذوالفقار نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کی۔

یہ حملہ باجوڑ ضلع کے علاقے ماموند میں ہوا، جو افغانستان کی سرحد سے تقریباً 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

(جاری ہے)

اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی لیکن تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) سمیت دیگر عسکریت پسند ماضی میں پولیو کے قطرے پلانے والے متعدد کارکنوں اور ان کی حفاظت پر مامور سرکاری اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہیں۔

پاکستان اورافغانستان دنیا کے وہ واحد ممالک ہیں جہاں پولیو کا وائرس اب بھی موجود ہے۔ یہ مہلک وائرس متاثرہ افراد خصوصاً کم عمر بچوں میں عمر بھر کی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی(سی آئی اے) کی جانب سے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مدد کے لیے ایک جعلی ویکسینیشن مہم کے انعقاد کے بعد سے انسداد پولیو مہم کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے پہاڑی سرحدی علاقوں میں بعض مذہبی رہنماؤں نے یہ غلط معلومات بھی پھیلائی ہیں کہ منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین کی خوراکوں میں سور کا گوشت اور الکحل کے اجزا ہوتے ہیں، جو دین اسلام میں حرام ہیں۔پاکستان، جو پہلے سے ہی سکیورٹی، اقتصادی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، میں 8 فروری کو عام انتخابات سے قبل اس طرح کے واقعات نے سلامتی سے متعلق خدشات اور بھی بڑھا دیے ہیں۔

افغان طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان نے خاص طور پر افغانستان کے ساتھ اپنے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا ہے۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق پچھلے سال حملوں اور ریاستی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھ سال کیبلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جس میں 1,500 سے زیادہ عام شہری، سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور عسکریت پسند مارے گئے۔

اسلام آباد حکومت کا الزام ہے کہ دشمن گروپ سرحد کے اس پار افغانستان میں "پناہ گاہوں" سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ تاہم اس الزام کی طالبان حکومت مسلسل تردید کرتی رہی ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے، جو کابل کے نئے طالبان حکمرانوں کے ساتھ مشترک اقدار رکھتا ہے۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا، "افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کو پناہ دی ہے اور وہ ان کی فعال حمایت کرتے ہیں" اس رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے ارکان کی افغانستان میں تعداد 4,000 سے 6,000 کے درمیان ہے۔

ش ر / ک م ( اے ایف پی)