ایران سے کشیدگی پر پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 19 جنوری 2024 16:20

ایران سے کشیدگی پر پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2024ء) پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس آج جمعے کے روز منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کا مقصد ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد ملکی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا جائے۔

تہران کی جانب سے پاکستان کے اندر "دہشت گردوں کے اہداف" کو نشانہ بنانے کے دو دن بعد اسلام آباد نے جمعرات کو ایران میں باغیوں پر حملوں کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اجلاس میں ملک کے طاقتور آرمی چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان بھی شرکت کریں گے۔

پاکستانی نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس کا مقصد ''ایران اور پاکستان کے مابین حالیہ واقعات کے بعد قومی سلامتی کا وسیع جائزہ‘‘ لینا ہے۔

(جاری ہے)

دوطرفہ کشیدگی اورعدم استحکام کا خدشہ

دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان غیر محفوظ سرحد کے آر پار فضائی حملوں نے جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان اور شیعہ اکثریتی ملک ایران کے درمیان کشیدگی اور خطے میں وسیع تر عدم استحکام کے خدشات کو ہوا دی ہے۔

ایران مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسند گروپوں کا بڑا حمایتی ہے، جن میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی شامل ہیں۔

حماس اور حزب اللہ کو جرمنی، امریکہ اور اسرائیل نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔ واشنگٹن نے جمعرات کو حوثی باغیوں کو بھی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر لیا۔

پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو دہشت گردی یا علیحدگی پسند عناصر کے بارے میں جو بھی خدشات ہیں ان کو فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی ذرائع سے دور کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں یقینی طور پر کہہ سکتی ہوں کہ ایران نے انتہائی احمقانہ اور غلط کام کیا۔ انہوں نے کہا، ''مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کے پاس بہت سے آپشن تھے۔ میں ابھی حکومت میں نہیں ہوں، میں کھل کر بات کر سکتی ہوں۔‘‘

اقوام متحدہ اور امریکہ نے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے جبکہ چین نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

یورپی یونین نے جمعرات کو کہا کہ وہ ''مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے بڑھنے والے تشدد کے بارے میں فکر مند ہے۔‘‘

ش ر⁄ رب (اے ایف پی، روئٹرز)