پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں کا زوال کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 14 فروری 2024 18:20

پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں کا زوال ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 فروری 2024ء) تمام تر کوشیشوں کے باجود خیبر پختونخوا میں 8 فروری کو ہونیوالے انتخابات میں پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے سربراہان ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہ ہوسکے جسکی وجہ سے عوام نے انہیں قانون ساز اداروں (وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں) سے مکمل طور پر باہر کردیا۔

یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ان قوم پرست سیاسی جماعتوں کو گذشتہ تین سال سے اپنے بیانیے کو سمجھانے میں ناکامی کا سامنا رہا ہے۔

انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر جہاں بعض سیاسی راہنما اپنی ناکامی اور شکست قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے ہیں وہاں بعض نے نئے جوش و جذبے کے ساتھ تیاری کرکے میدان میں نکلنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم بعض نے اس شکست کی ذمہ داری پاکستان کے مقتدر حلقوں پرعائد کی ہے ۔

(جاری ہے)

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی نے الیکشن کے فوراً بعد اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کامیاب امیدوار کو مبارک باد دیتے ہوئے پارٹی کے مرکزی عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ۔

عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختونخوا کے 113 صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دی تھی جس میں صرف ایک کامیاب رہا جبکہ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 نشستوں میں اے این پی کا کوئی اُمیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔

صوبے اور پختونوں کے حقوق کا ایجنڈا لے کر دوسری سیاسی جماعت قومی وطن پارٹی بھی مسلسل زوال کا شکار ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا آفتاب احمد خان کی سربراہی میں یہ قوم پرست سیاسی جماعت قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی ۔

پی ٹی آئی کی گود سے جنم لینے والی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے سربراہ پرویز خٹک نے استعفے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے آرام کریں گے اور یہ کہ انہوں نے نہ استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی وہ سیاست چھوڑیں گے ۔ خیبر پختونخوا میں پانچ سابق وزرائے اعلیٰ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں محمود خان، پرویز خٹک ، امیر حیدر خان ہوتی ، سردار مہتاب عباسی، آفتاب احمد خان شیرپاؤ شامل ہیں۔

قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنے منشور واضح نہ کرسکیں

خیبر پختونخوا گذشتہ چار دہائیوں سے دہشت گردی اور مالی بدحالی کا شکار ہے۔ لیکن قوم پرست جماعتیں اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے بھی متحد نہ ہوسکی ۔ معروف تجزیہ نگار گوہر علی خان سے جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا،'' قوم پرست سیاسی جماعتیں جب بھی اقتدار میں آتی ہیں یہ اپنا منشور اور ایجنڈا ایک طرف رکھ کر دیگر کاموں میں مصروف ہوجاتی ہیں اب عوام نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ہے۔

‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ ان لوگوں کا بیانیہ ایک ہے لیکن جب الیکشن کے دن آتے ہیں تو یہ ایک دوسرے کے مخالف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''حالیہ انتخابات میں بھی یہ لوگ متحد نہ ہوسکے۔

صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں انکے لیے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی موثر اور قابل عمل ایجنڈا موجود نہیں جبکہ یہ بیرونی سرمایہ کاروں سمیت اپنے صوبے کے سرمایہ کاروں کو بھی صوبے میں صنعتیں لگانے پر راغب نہ کرسکیں تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوسکیں اوریہی دو بڑی وجوہات ہیں جس کی بنا پر قوم پرستوں کی سیاست روبہ زوال ہوگئی ورنہ پاکستان میں ان جماعتوں کے قائدین کی قربانیوں کے سب معترف ہیں۔

‘‘

نوجوان اور سوشل میڈیا

سوشل میڈیا نے حالیہ انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے منشور اور بیانے کو آگے لے جانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن پاکستان کی دیگر جماعتوں کے برعکس قوم پرست سیاسی جماعتین سو شل میڈیا سے کا فی دور رہیں۔ انکی سرگرمیاں پوسٹرز، بینرز اور کارنر میٹنگز تک محدود رہیں ۔ جسے نوجوان طبقے نے خاطر میں نہیں لایا اور وہ ان نوجوانوں کو راغب کرنے میں ناکام رہیں۔

اسی طرح ان قوم پرست سیاسی جماعتوں نے ووٹ رجسٹریشن ، پارٹی ممبر شپ رجسٹریشن مہم اور یوتھ ونگ پر بھی وہ توجہ نہیں دی جو وقت کا اہم تقاضا ہے ۔

ان قوم پر ست سیاسی جماعتوں کے سینیئر عہدیدار اور کارکن بھی اس پالیسی کو نظر انداز کرتے رہے جبکہ انکے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتوں باالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی حالیہ الیکشن کی جیت میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔

پی ٹی آئی نہ تو کوئی خاص جلسے کر سکی اور نہ ہی ان کی کارنر میٹنگز ہوئیں لیکن سوشل میڈیا کے زریعے اپنے پارٹی کے نامزد اُمیدواروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں جیت سے ہمکنا کروانے میں کامیاب رہی۔

عوامی نیشنل پارٹی کا آئندہ کا لائحہ عمل

الیکشن ہارنے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ آج انکا یہ موقف درست ثابت ہوا کہ 2024ء کے انتخابات 2018ء سے بھی زیادہ دھاندلی زدہ ہوں گے۔

انکا کہنا تھا،'' یہ بات ہم دسمبر میں کہہ چکے ہیں کہ 2024ء میں لوگ 2018ء کے انتخابات بھول جائیں گے۔ ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ لوگ کہتے ہیں عدالتوں سے رجوع کریں، عدالتیں بھی مینیج کی جارہی ہیں۔ عدالتوں سے فیصلے الیکشن کمیشن بھیجے جارہے ہیں اور وہاں من پسند لوگوں کی فتحیابی کا اعلان کیا جارہا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ وہ منیجمنٹ کرنیوالوں کے خلاف میدان میں ہیں اور تمام جمہوریت پسند قوتیں بھی یہ اعلان کردیں۔

قومی وطن پارٹی کا موقف

اسی طرح کا موقف دوسری قوم پرست سیاسی جماعت قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا بھی سامنے آیا ہے۔ انکا کہنا تھا،''پختونوں کے نمائندوں کو ایک منظم سازش کے تحت تیسری مرتبہ پارلیمنٹ سے باہر رکھا گیا۔‘‘ انہوں نے تسلیم کیا کہ پختونوں کے مابین اتحاد کا فقدان انتخابات میں شکست کی بنیاد بنا ہے حالانکہ جو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں انہیں ووٹ دینے والوں نے صوبے کے اصل مسائل کو نظر انداز کرکے ووٹ دیا ہے۔

ان کے بقول، ''انتخابات کے نتائج غیر متوقع تھے اس لیے اسکی شفافیت پر بھی انگلی اٹھائی جارہی ہے۔‘‘

کئی قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں لیکن اب بھی انکے آپس میں متحد ہونے کا امکان کم ہی ہے۔ لیکن اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے بھی تاحال کوئی پالیسی سامنے نہ لاسکے بلکہ پشاور بھر میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے گذشتہ پانچ دن سے مرکزی شاہراہ بند کررکھی ہے ۔