Live Updates

عمران خان کو اگر آج اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملے تو وہ پھر ان کا نعرہ لگائے گا

اگر ہم سیاستدان ملک کی عزت وآبرو آئی ایم ایف یا امریکا کے آگے بیچنے کو تیار ہیں تو پھر ملک کا کیا رہ جائے گا؟ تو پھر اسٹیبلشمنٹ پر مداخلت کا الزام کیسے دیا جاسکتا؟ سینئر مرکزی رہنماء ن لیگ خواجہ آصف

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 29 فروری 2024 21:37

عمران خان کو اگر آج اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملے تو وہ پھر ان کا نعرہ لگائے ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 29 فروری 2024ء) سینئر مرکزی رہنماء ن لیگ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان کو اگر آج اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملے تو وہ پھر ان کا نعرہ لگا ئے گا، اگر ہم سیاستدان ملک کی عزت وآبرو آئی ایم ایف یا امریکا کے آگے بیچنے کو تیار ہیں تو پھر ملک کا کیا رہ جائے گا؟ تو پھر اسٹیبلشمنٹ پر مداخلت کا الزام کیسے دیا جاسکتا؟ انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں 7ویں بار منتخب ہوکر اسمبلی میں آیا ہوں، آج اسمبلی میں جو تماشا ہوا ہے یہ کوئی سرپرائز نہیں تھا، پی ٹی آئی کا اسمبلی میں نام سنی اتحاد کونسل ہے، ہوسکتا ہے اسمبلی اتنی آرام سے نہ چلے لیکن وہ ثابت کررہے تھے کہ ہم نے لیڈر کے لئے احتجاج کیا ہے، ان کے حساب سے احتجاج بنتا بھی تھا۔

(جاری ہے)

خواجہ آصف نے کہاکہ 2018کی اسمبلی میں عمران خان بہت ساری چیزوں سے دستبردار ہوچکے تھے، اسمبلی کا چلانا بھی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا تھا، امید ہے اب اس قسم کی کوئی چیز دہرائی نہیں جائے گی، اب اسمبلی کو آئینی پاورز کے ساتھ چلائی جائے گی،اگر عمران خان کے پانچ سالوں پر نظر دوڑائیں، اس دوران فیٹف، منی لانڈرنگ سے متعلق قانون سازی ہورہی تھی، اسمبلی کے تقدس کو نقصان پہنچا، عمران خان جب اسمبلی میں آتے تھے تو گارنٹی مانگتے تھے کہ کوئی مجھ پر آواز نہیں کسے گا، ان کا مزاج اتنا نازک ہوچکا تھا، لیکن ایوان میں سیاستدانوں پر آوازیں لگتی ہیں، پبلک لائف میں اگر آپ پر آوازیں لگیں تو آپ کو پھر پبلک لائف چھوڑنی پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی یا قانون سازی کے لیول پر کوئی مداخلت کرے گا، اتحادی حکومت اسمبلی کو اچھے طریقے سے چلائے گی، عمران خان کا تکبر تھا کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھنے سے انکاری تھے، ابھی نندن والی سکیورٹی کی میٹنگ تھی وزیراعظم کا ہونا ضروری تھا، جنرل باجوہ نے قائل کرنے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن عمران خان نہیں آئے۔ آئی ایس ایس میس میں گلگت بلتستان کے حوالے سے میٹنگ تھی ، جس کو جنرل باجوہ اورڈی جی آئی ایس پی آر نے ہیڈ کی، لیکن ہم سب درباری وہاں حاضر ہوجاتے تھے۔

اسی طرح کبھی اسپیکر ہاؤس میں میٹنگ ہوتی تھی ، فیٹف میں بھی مدد کی، منی لانڈرنگ کے معاملے پر بھی گرفتاری 90دن کی بجائے 180دنوں کی کررہے تھے، اگر ہم مزاحمت نہ کرتے تو وہ قانون بن جاتا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سبھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں 1970کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشنز پر سوالیہ نشان ہے۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ کا نہیں سیاستدانوں کا قصور ہے، سیاستدانوں کو چاہیے ایسا ضابطہ اخلاق بنائیں جس سے ان کا گھر محفوظ رہے، لیکن ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی گروہ اسٹیبلشمنٹ سے مل جاتا ہے، جب تحریک عدم اعتماد کا معاملہ تھا تب بھی پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبرپختونخواہ حکومت نے آئی ایم ایف کو خط لکھا، میں سمجھتا ہوں آئی ایم ایف کو خط لکھنا ملک دشمنی کے مترادف ہے، ایک ایجنسی یا ادارے کو ملکی سیاست میں دعوت دے رہے ہیں ، آئی ایم ایف پر سب سے زیادہ اثرورسوخ امریکا کا ہے،آئی ایم ایف کے پاس سب سے زیادہ شیئرز امریکا کے ہیں، ایک طرف کہتے ہیں ایبسولوٹلی ناٹ، غلامی نامنظور دوسری طرف ’لولیٹر‘لکھ رہے ہیں کہ آپ مداخلت کریں ، اگر وہ مداخلت کریں گے تو اپنی شرائط پر کریں گے، آپ امریکا کو کہہ رہے کہ ہم اچھے بچے بن جائیں گے ہمارے سر پر ہاتھ رکھیں۔

اگر ہم سیاستدان ملک کی عزت وآبرو آئی ایم ایف یا امریکا کے آگے بیچنے کو تیار ہیں تو پھر ملک کا کیا رہ جائے گا؟یہ غلط ہے کہ جب امریکا کی ضرورت پڑتی ہے تو زندہ باد ، ورنہ مردہ باد کے نعرے لگاتے، اگر سیاستدان ایسا کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کیسے الزام دیا جاسکتا؟وہ پھر مداخلت پردے کے پیچھے سے کریں یا سامنے ،کریں گے۔عمران خان کو اگر آج پھر اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملے تو وہ ان کا نعرہ لگا دیں گے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات