پاکستان میں انسانی اسمگلروں کی سفاکیت مزید بڑھ گئی، غیرقانونی تارکین وطن کو ہدف بنالیا

گزشتہ ایک ماہ کے دوران 3 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 10 کے قریب نوجوانوں کو گینگز نے تشدد کا نشانہ بنایا معلوم ہوا ہے پاکستانی انسانی اسمگلروں کا گروہ کچھ افغانوں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہے، ایف آئی اے افسر

اتوار 24 مارچ 2024 13:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مارچ2024ء) انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے میں ملوث اسمگلروں نے ایران کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کا بھی اپنا ہدف بنالیا جنہیں وہ تاوان کیلئے اغوا کرنے لگے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسمگلر اپنے ایجنٹوں کی مدد سے یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن کو اپنے قبضے میں لے کر ان پر تشدد کرتے ہیں، ان کی ویڈیو فلم بناتے ہیں اور ان کے عزیزواقارب کو بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی بحفاظت رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کرسکیں۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایسے 3 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 10 کے قریب نوجوانوں کو ان گینگز نے تشدد کا نشانہ بنایا اور جیلوں میں ڈال دیا، ان میں سے کچھ نے رہائی کے لیے رقم ادا کی جبکہ کچھ کو ایرانی پولیس نے تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے تعاون سے رہا کر دیا۔

(جاری ہے)

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی ای) نے کہا کہ غیرقانونی تارکین وطن کے سفر کا انتظام کرنے اور بھاری تاوان وصول کرنے کے لیے بیرون ملک انہیں اغوا کرلینے کے خطرناک واقعات میں حالیہ چند روز کے دوران تیزی آگئی ہے۔

گزشتہ ماہ حافظ آباد کا رہائشی محمد حسنین اپنے کزن فیصل اور پڑوسی انور کے ساتھ یورپ پہنچنے کیلئے بذریعہ سڑک ایران روانہ ہوا، انہوں نے یہ سفر ٹریول ایجنٹ محمد سرور کے ساتھ اصل ویزوں پر سفر کیا جس نے انہیں ایران سے ترکی کے راستے یونان لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔تہران پہنچنے پر اٴْس ٹریول ایجنٹ (محمد سرور) نے تینوں کو یورپ بھیجنے کیلئے ہر ایک سے 2500 ڈالر مانگے، تینوں نے رقم کیلئے پاکستان میں اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا، اہل خانہ مطلوبہ رقم جمع کرنے میں ناکام رہے تو سرور انہیں تہران میں ایک 3 منزلہ مکان میں اس بہانے لے گیا کہ وہ چند سو روپے میں ان کے سفر کا بندوبست کروادے گا۔

محمد حسنین نے بتایا کہ جب ہم اٴْس مکان میں پہنچے تو وہاں موجود لوگوں نے ہمیں قابو کرلیا اور ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیا، 24 گھنٹے کے بعد فیس ماسک پہنے ہوئے تقریباً 3 سے 4 افراد نے ہمیں پانی پلایا اور اس کے بعد انہوں نے ہم پر وحشیانہ تشدد کیا، انہوں نے تشدد کی ویڈیو بھی بنائی اور اسے پاکستان میں ہمارے گھر والوں کو بھیجا اور ہمیں آزاد کرنے کے لیے ہر ایک کے گھر والوں سے 5 ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ قید کے دوران وہ ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے، جب ہمارے اہل خانہ نے اغوا کاروں کو بتایا کہ وہ رقم کا بندوبست نہیں کر سکے تو وہ مزید ظالم ہو گئے، انہوں نے فیصل کا کان کاٹ دیا، انور کا ہاتھ جلا دیا اور میرے پاؤں میں کیل ٹھونک دی۔حسنین نے بتایا کہ وہ ہمیں تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے بجلی کے جھٹکے لگاتے اور ویڈیوز ہمارے اہل خانہ کو بھیجتے جنہوں نے آخر کار اٴْن کے ایک مقرر کردہ شخص کو ایزی پیسہ کے ذریعے 3 لاکھ روپے تاوان ادا کردیا، بعد میں ان اغوا کاروں نے ہمیں الگ کمرے میں ڈال دیا۔

دریں اثنا حسنین کے اہل خانہ نے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا جس نے تہران میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا، پاکستانی مشن نے یہ معاملہ ایرانی پولیس کے سامنے اٹھایا اور پس پردہ تفتیش کے لیے گجرات میں ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا۔اس سے پہلے کہ ایرانی پولیس پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو کی فراہم کردہ معلومات پر مجرموں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتی، حسنین اپنے اغوا کاروں کی گرفت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اسے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے میں مدد کی۔

حسنین نے کہا کہ 22 دن کی قید کے بعد مجھے فرار ہونے کا موقع ملا، میرے اغوا کاروں کو یقین تھا کہ میرے پاؤں میں کیلیں ٹھوکی ہوئی ہیں اس لیے میں چل نہیں سکوں گا، ایک دن انہوں نے میرے کمرے کا دروازہ باہر سے بند نہیں کیا اور میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، سڑک پر مجھے ایک پاکستانی ڈرائیور ملا جس نے میری فیملی سے رابطہ قائم کرنے میں میری مدد کی جنہوں نے اٴْس سے درخواست کی کہ وہ مجھے پاکستانی سفارت خانے چھوڑ دے۔

دوسری جانب ایرانی پولیس نے فیصل اور انور کو بازیاب کر کے پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کر دیا، سفارت خانے نے انہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا۔تہران میں ایف آئی اے کے رابطہ افسر آفتاب احمد بٹ نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی انسانی اسمگلروں کا گروہ کچھ افغانوں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہے، وہ ممکنہ غیر قانونی تارکین وطن کو لالچ دے کر ایران لے جاتے ہیں اور ان کے اہل خانہ سے بھاری تاوان وصول کرنے کے لیے انہیں اغوا کرلیتے ہیں۔

آفتاب احمد بٹ کے مطابق پاکستانی سفارت خانے نے مزید 2 کیسز بھی نمٹائے ہیں جس میں سرگودھا اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے 7 نوجوانوں کو ان کے اغوا کاروں سے بازیاب کرایا گیا، ایسے ہی ایک کیس میں اغوا کاروں نے مغوی کے خاندان پر اس کی رہائی کیلئے ایک کروڑ روپے تاوان ادا کرنے کے لیے دبائو ڈالا تھا۔انہوں نے کہا کہ سفیر مدثر ٹیپو نے پاکستانیوں کو بچانے میں گہری دلچسپی لی ہے اور اس سلسلے میں ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں، پاکستان میں سرگرم انسانی اسمگلروں کے طریقہ واردات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی سفارتخانے نے ایف آئی اے کو بھی ایران میں ایسے کیسز سے آگاہ کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ پاکستان میں ان انسانی اسمگلروں کے گروہ کے خلاف سخت کارروائی کریں۔مدثر ٹیپو نے کہا کہ ایران، عراق اور سعودی عرب جانے والے زائرین کے حوالے سے وزارت مذہبی امور کی پالیسی پر عمل درآمد کی بھی اشد ضرورت ہے، اس پالیسی کے نفاذ سے انسانی اسمگلنگ کو روکا جا سکے گا۔پاکستان اور ایران کی حکومتیں زائرین کی سیکیورٹی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر بات کر رہی ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی اس پر دستخط ہوجائیں گے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کی آمدورفت کو منظم کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہو گا۔