ھ*ٹیکس سسٹم کاروبار دوست بنایا جائے، تاجر دوست سکیم پر سخت تحظات رکھتے ہیں: کاشف انور

بدھ 27 مارچ 2024 20:10

'3لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مارچ2024ء) لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور کہا ہے کہ ٹیکس سسٹم کاروبار دوست بنائے بغیر معاشی مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ ایس آر او 420کے تحت متعارف کرائی گئی تاجر دوست سکیم 2024پر سخت تحفظات رکھتے ہیں جنہیں دور کیا جائے۔ سٹیک ہولڈرز کو پالیسی سازی کے عمل میں شریک کیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں۔

وہ معاشی چیلنجز اور ان کے حل کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری، نائب صدر عدنان خالد بٹ اور کاروباری برادری کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی۔ کاشف انور نے کہا کہ SRO-420 جس کے تحت تاجر دوست سکیم 2024متعارف کرائی گئی ہے جس کے بارے میں لاہور چیمبر کو شدید تحفظات ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے کاروباری افراد جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں اور جنہوں نے کبھی بھی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائی ، ان کو اس سکیم کے تحت ہر ماہ ایڈوانس ٹیکس جمع کروانے کا کہا گیا ہے جو عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے دکانداروں کا واسطہ ٹیکس لائرز سے پڑا رہے گا۔ دوسرا دکان کا ایریا اور پراپرٹی کی ویلیو کے حساب سے ٹیکس کا تعین کیا جائے گاجس کا کسی سیل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس ٹیکس کو سادہ بنایا جائے اور دکاندار سال میں صرف ایک مرتبہ سنگل پیج ریٹرن جمع کرائیں۔ اس سکیم میں منیمم ٹیکس کے بجائے بجلی کے بلوں کے مطابق ٹیکس ایڈجسٹ ایبل ہونا چاہیے جس کا آڈٹ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں کو سہولیات ، مراعات دی جائیں اور جیسے VTCS-2016متعارف کرایا گیا تھا اسی طرز پر اس ایس آر کے بارے میں وضاحت کے ساتھ لوگوں کو بتایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں SRO-1842 کے ذریعے ایک نئی شرط عائد کی گئی جس کے مطابق ایسے ری ٹیلرز جن کا 12ماہ میںوِد ہولڈنگ ٹیکسSection 236H کے تحت ایک لاکھ سے زائد ہو ان کو POS Integrationکے لئے پابند کر دیاگیا۔

اس سے چھوٹے رٹیلرز پر بوجھ بڑھ جائے گااور ٹیکس نیٹ میں وسعت جیسے اہم اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جائے گا۔مزید برآں ایس آر او کے ذریعے چھوٹے کاروباروں کے لیے بیلنس شیٹ کی فراہمی اور بائیومیٹرک لازمی قرار دے دئیے گئے ہیں جبکہ اس ایس آر او کے تحت ٹرن اوور کیپیٹل کے پانچ گنا سے زائد نہیں ہوسکتا وگرنہ کمشنر سے اجازت لینا ہوگی۔ کاشف انور نے حکومت پر زور دیا کہ ٹیکسیشن سسٹم آسان بنایا جائے۔

آڈٹس، بینک اٹیچمنٹ اور سرچارج کی موجودگی میں کوئی ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے گا۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ لاہور چیمبر کی دعوت پر مارکیٹ لیڈرز نے لاہور چیمبر کو تجاویز بھیجیں جن کی مدد سے لاہور چیمبر کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو طویل عرصہ سے معاشی چیلنجز درپیش ہیں جن سے نکلنے کے لیے موثر پالیسیوں اور ان میں تسلسل کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک مقامی انڈسٹریز کے مسائل حل نہیں کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ملکی معیشت کے استحکام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات متعارف کرانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے افراط زر میں اضافے، مارک اپ کی زیادہ شرح اور بجلی، گیس ، پٹرول کی زیادہ قیمتوں جیسے مسائل کا سامنا ہے جن پر فوری قابو پانا ہوگا۔

لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ ایل ڈی اے موجودہ انڈسٹری اور کمرشل ایریاکی کنورڑن کے لئے اس کے ڈی سی ریٹ کے مطابق کمرشل ویلیو کا 20% کا تقاضا کرتا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ دوسرے RUDA اور LDAکے افسران بھی بہت زیادہ شرح سے کمرشلائزیشن فیس کا تقاضہ کرتے ہیں،جس کا انڈسٹری اور کاروبار کے لئے فوری طور پر انتظام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔یہ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں اور تاجروں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئے روز اضافوں سے انڈسٹری کو شدید پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیاہے اور وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت کاروباری شعبہ کے لیے بجلی و گیس کی قیمتوں میں فوری کمی لائے۔ کاشف انور نے کہا کہ ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے پارکنگ پلازے تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید برآں مارکیٹوں کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لیے تاجروں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ کاشف انور نے کہا کہ ان تاجروں کو پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کی طرف سے بھاری ریگولیٹری ایڈورٹائزمنٹ فیس کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو صرف اپنی شناخت بنانے کے لیے سائن بورڈز کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیولرز خریدار کو پوری رقم ادا کرکے سونا خریدتے ہیں لیکن پولیس بعض اوقات اسی آدمی کو پکڑ کر جیولرز کے پاس لے آتی ہے کہ اس سے چوری کا سونا خریدا گیا ہے۔

اس سلسلے میں ایس او پیز مرتب کیے جائیں تاکہ جیولرز کو تحفظ دیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں کو مارکیٹ میں آتشزدگی سے نقصانات کے لیے واٹر ہائیڈرنٹس نصب کرنا اشد ضروری ہے۔کاشف انور نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ انڈسٹریل ایریاز اور مارکیٹوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے اور چوری و ڈکیتی کی وارداتیں روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری معاملات میں سرکاری محکموں کی مداخلت کم سے کم کی جائے۔ کاروباری برادری کو ہراساں کرنے اور معمولی کوتاہی پر فیکٹری سیل کرنے سے انڈسٹری کا مورال ڈا?ن ہوتا ہے لہذا یہ سلسلہ روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بند صنعتی یونٹس پر MDIچارجز بھی لگا دیئے ہیں جس سے انہیں صنعتیں بند رکھنے کے باوجود بجلی کے بل بھیجے جاتے ہیں جو کہ ایک انتہائی نامناسب اقدام ہے۔

ایسے کاروباری ماحول میں سوشل سیکورٹی کے ریٹ میں اضافہ بھی ناقابلِ قبول ہے۔واسا کی جانب سے لاہور میںصنعتی و کمرشل استعمال کے لئے پانی کا ٹیرف ایک لاکھ روپے فی کیوسک ہے،جوکہ پنجاب کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ ایک ہی صوبے کے مختلف شہروں میں واٹر ٹیرف یکساں نہ ہونے سے کاروباری لاگت میں فرق آجاتا ہے اور شہروں کی Competitivenessمتاثر ہوتی ہے۔

تمام شہروں کیلئے پانی کا یکساں ٹیرف متعین کیا جانا چاہیے۔کاشف انور نے کہا کہ حکومت نے حال ہی میںAxel Load کی Limit میںکمی کی ہے جس کی وجہ سے Cargo Delivery Charges میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جس سے کاروباری لاگت بڑھ گئی ہے۔ لیٹر آف کریڈٹ نہ کھلنے کی وجہ سے بھی کاروباری برادری کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان میں پالیسی ریٹ بائیس فیصد ہے جو کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے جسے کم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جن ٹیکس دہندگان ، جن کا ایڈوانس ٹیکس ایف بی آر کے پاس ہے، ان کی پچھلے سال کی ایڈجسٹمنٹ ایڈوانس ٹیکس میں سے حکومت نے ختم کردی ہے جس کی وجہ سے کیش فلو کا مسئلہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریفنڈز نہ ملنے اور تاخیر کی وجہ سے بھی تاجر برادری مسائل کا شکار ہے۔ ایف بی آر یہ مسائل فوری حل کرے۔ ایسی صنعتی مشینری اور خام مال جو ملک میں نہیں بنتے ان کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی ختم کیے جائیں۔

اس کے علاوہ درآمدات کا متبادل بھی تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے Crudeآئل کی درآمد پر سترہ ارب ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ حکومت توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دے اور کالا باغ ڈیم سمیت آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نقصان دہ قومی اداروں کی تنظیم نو کی جائے یا پھر ان کی نجکاری کردی جائے تاکہ ان پر خرچ ہونے والی کثیر رقم بچائی جاسکے۔

انہوں نے کہ کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے پیش نظر سرکاری ملازمین کو دئیے جانے والے فری یونٹس ختم کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انسداد سموگ اور ڈینگی لاروا کی آڑ میں فیکٹریاں سیل کرنے یا ایف آئی آرز کروانے کے بجائے پہلے وارننگ دی جائے اور مسئلہ حل نہ ہو تب ہی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔