بھارت کے الیکشن اس مرتبہ زیادہ اہم کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 15 اپریل 2024 20:00

بھارت کے الیکشن اس مرتبہ زیادہ اہم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اپریل 2024ء) بھارت میں رواں ماہ سے شروع ہونے والے مرحلہ وار پارلیمانی انتخابات میں اہل ووٹرز کی تعداد تقریبا ایک بلین ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت متوقع طور پر اس الیکشن میں بھی بہتر کارکردگی دیکھائے گی۔

مودی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی کوشش میں ہیں۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنی سیاسی مہم میں قوم پرستی کو بنیادی توجہ دی۔

مودی کے خلاف کانگریس کی سرپرستی میں ایک بڑا اپوزیشن اتحاد میدان میں ہے۔

الیکشن کیسے ہوں گے؟

بھارتی لوک سبھا یعنی ایوان زیریں کی 543 نشستوں پر مقابلہ ہو گا۔ بھارت میں ہر پانچ سال بعد الیکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بھارت میں حکومت سازی کی خاطر کسی بھی پارٹی کو لوک سبھا میں 272 نشستوں کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

بھارتی کشمیر میں عام انتخابات کی ہلچل اور سیاسی انتشار

بھارتی انتخابات:تارکین وطن بی جے پی کے لیے کیوں اہم ہیں؟

گزشتہ الیکشن میں مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

مرکزی اپوزیشن پارٹی انڈین نیشنل کانگریس صرف باون سیٹوں پر کامیاب ہو سکی تھی۔

الیکشن کے علاوہ بھارتی صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایوان زیریں کے لیے دو اینگلو انڈین افراد کو نامزد کر سکتے ہیں۔

الیکشن کب اور کیسے ہوں گے؟

اس بار انتخابات سات مرحلوں میں منعقد ہوں گے۔ اس کا مقصد پولنگ بوتھوں پر مناسب سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔

بھارت میں ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک نظام ہے جبکہ رائے دہندگان صرف ایک بٹن دبا کر اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔

بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پہلی مرتبہ سن 1982 میں استعمال کی گئی تھی جبکہ سن 2000 کی دہائی کے اوائل سے اس کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا جانے لگا تھا۔

بھارت میں ووٹنگ کی تاریخیں انیس اپریل، چھبیس اپریل، سات مئی، تیرہ مئی، بیس مئی، پچیس مئی اور یکم جون ہیں۔

جب ووٹنگ کا عمل مکمل ہو جائے گا تو ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی۔

رجسٹرڈ ووٹرز اور ووٹنگ کا طریقہ کار

بھارت میں بھی ووٹنگ کا طریقہ کار ویسا ہی ہے، جیسا یہ پاکستان میں ہے۔ کسی بھی حلقے سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے۔

بھارت میں الیکشن میں بطور امیدوار کھڑا ہونے کے لیے کم ازکم لازمی عمر پچیس برس ہے جبکہ اٹھارہ سال کا کوئی بھی شہری ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔

مودی کو آئندہ انتخابی فتح کا یقین، وزراء کو نئے سالانہ اہداف تجویز کرنے کی ہدایت

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں انتخابات کا انعقاد کتنا مشکل؟

بھارت میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 968 ملین ہے۔ ان میں سے 497 ملین مرد ہیں جبکہ 471 ملین خواتین ووٹرز۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس الیکشن میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ ہو گی۔ گزشتہ الیکشن میں بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

اہم امیدوار کون کون ہیں؟

وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت فیورٹ قرار دیے جا رہے ہیں۔ مودی تو اس دوڑ میں سرخیوں میں ہیں لیکن ان کے بعد ان کے نائب امیت شاہ بھی ایک انتہائی اہم امیدوار قرار دیے جا رہے ہیں۔

حزب اختلاف کا اہم چہرہ راہول گاندھی ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ راہل کی کوشش ہے کہ وہ مودی کو سخت مقابلہ دیں، اسی لیے انہوں نے اپوزیشن کا ایک بڑا اتحاد بنایا ہے۔

راہول کی والدہ سونیا گاندھی اس بار الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی ہیں۔

مودی ریکارڈ برابر کرنا چاہتے ہیں؟

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں ہیں۔ اس سے پہلے بھارت کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو ہی ہیں، جو مسلسل تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے۔

مودی کے بقول بھارت کی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے کی خاطر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرستی میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی جیت لازمی ہے۔

دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بھارت نے گزشتہ سالوں میں تیزی سے ترقی کی ہے۔

مودی کا نعرہ ہے کہ اگر وہ تیسری مرتبہ بھی وزیر اعظم بنے تو وہ اپنے اس دور میں بھارت کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت بنا دیں گے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیادہ تر ووٹر قوم پرست ہندو ہیں۔ بھارت کی ایک اعشاریہ بیالیس بلین کی آبادی میں ہندوؤں کی شرح اسّی فیصد بنتی ہے۔

مودی نے اس مذہبی ووٹ بینک کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر بابری مسجد کے انہدام کے بعد اسی متنازعہ جگہ پر رام مندر بنوایا ہے، جس سے ہندو ووٹرز کی ہمدردی مودی کے ساتھ ہو گئی ہے۔

مودی کے مقابلے میں حزب اختلاف نے دو درجن سے زائد پارٹیوں کا ایک اتحاد بنایا ہے، جو اس الیکشن میں مل کر مودی کے نیشنل الائنس کے خلاف میدان میں اترے گا۔

انڈیا الائنس نامی اس اپوزیشن اتحاد کی سرپرستی کانگریس پارٹی کر رہی ہے۔ اس اتحاد میں زیادہ تر لبرل، سیکولر، اعتدال پسند اور بائیں بازو کی پارٹیاں شامل ہیں۔ انڈیا الائنس کا کہنا ہے کہ ملک کے جمہوری نظام کو بچانے کے لیے مودی کی شکست ضروری ہے۔

ع ب / ش ر (روئٹرز، اے ایف پی)