ٴْبلوچستان اسمبلی نے شہید سالار میڈیکل کالج خاران کے قیام کے حوالے سے قرار داد منظور کرلی

جمعہ 17 مئی 2024 21:55

Oکوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 مئی2024ء) بلوچستان اسمبلی نے شہید سالار میڈیکل کالج خاران کے قیام کے حوالے سے قرار داد منظور کرلی جبکہ بلوچستان میں قدرتی گیس کی سہولت سے محروم اضلاع میں ایل پی جی گیس کے پلانٹ لگانے کو یقینی بنانے بسیمہ سے خاران روڈ کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں شامل کرکے تعمیر کرنے ،پنجگور میں انٹر نیٹ سروس کی فوری بحالی اور محکمہ صحت کا سالانہ بجٹ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق قرار دادیں کورم پورا نہ کے باعث پیش نہ ہوسکیں۔

جمعہ کی صبح بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اپنے مقررہ وقت سے آدھے گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کی صدارت میں تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا ایوان میں خاران میں میڈیکل کالج تعمیر کرنے کی مشتر کہ قرارداد میر شعیب نوشیروانی ،صوبائی وزیر میر محمدصادق سنجرانی، میرزا بدعلی ریکی اور حاجی غلام دستگیر بادینی نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ رخشان ڈویژن جو چاغی ، واشک، خاران اور نوشکی اضلاع پر مشمل ہے۔

(جاری ہے)

جہاں میڈیکل کالج کی سہولت میسر نہ ہونے کی بنا پر علاقے کے غریب طلباء اور طالبات کو میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لئے کوئٹہ اور ملک کے دیگر صوبوں میں جانا پڑتا ہے، وسائل کی عدم دستیابی کی بنا انہیں سخت مشکلات در پیش ہیں۔لہذا رخشان ڈویژن کے طلبا وطالبات کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایوان صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ شہید سالار میڈیکل کالج بمقام خاران" کے نام سے میڈیکل کالج کے قیام کی بابت فوری طور پر ضروری اقدامات اٹھا نے کو یقینی بنائے تا کہ علاقے کے طلبا و طالبات میں پائی جانے والی ہے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

قرار داد کی موزو نیت پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیرخزانہ شعیب نوشیروانی نے کہا کہ رخشان ڈویژن میں میڈیکل کالج کے قیام پر تمام اراکین اسمبلی متحد ہیں اسی طرح صوبے کے دیگرمسائل پر بھی متحد ہوناچاہیے پی ایس ڈی پی میں تعلیم اور صحت کو اہمیت دی جائے تاکہ لوگوں کی مشکلات کم ہو۔ صوبائی وزیرنورمحمد دومڑنے کہا کہ تعلیمی لحاظ سے بلوچستان پسماندہ ہے قرارداد وں سے کام نہیں بنتاعملی کام ہوناچاہیے تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا خصوصی اجلاس بجٹ سے پہلے بلوایاجائے تاکہ ان چیزوں پر غور کیا جاسکے۔

ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ نے کہاکہ حکومت کو طلبا کے لئے آسانی پید اکرنی چاہیے اور تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے ملکر عملدرآمد کیا جائے ۔ اصغرعلی ترین نے کہاکہ بلوچستان کاسروے کیاجائے جہاںجہاں میڈیکل کالج کی ضرورت ہے وہاں میڈیکل کالج بنائے جائیں بلوچستان اسمبلی سے بہت سی قراردادیں پیش ہوتی ہیں مگرعمل درآمد نہیں ہوتااس کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔

رکن اسمبلی سنجے کمار نے کہا کہ تعلیم عام کرنا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے تمام ڈویژنز میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیز قائم ہونی چاہئیں۔ رکن اسمبلی زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کیاجو میڈیکل کالج صوبے میں موجود ہیں وہاں تمام سہولت میسر ہیں تعلیمی اداروں پرتوجہ دی جائے تاکہ معیارتعلیم بہترہوسکے ادارے بنانے سے قبل ہمیں ٹھوس حکمت عملی اپنانی چاہیے ۔

ہمارے پاس اگر وسائل موجود ہیں تو میڈیکل کالج بنانے چاہئیں میں نے قراد داد کی مخالفت نہیں کی، چمن میں بھی میڈیکل کالج بنایاجائے تاکہ نوجوان تعلیم حاصل کرسکیں۔ رکن اسمبلی ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ صوبے میں موجود میڈیکل کالج تسلیم شدہ ہیں اس طرح کے بیانات سے طلبا میں تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ تسلیم شدہ نہیں ہمیں اسمبلی فلور پر حقائق پر مبنی بات کرنی چاہئے۔

ڈاکٹرنواز کبزئی نے کہا کہ میڈیکل کالج کے عملے کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیاجائے لورالائی کالج کے اساتذہ کوتین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیںاس کا بھی حل نکالا جائے رخشان ڈویژن کے علاوہ ژوب میں بھی میڈیکل کالج قائم کیاجائے ۔ میر زابد علی ریکی نے کہا کہ رخشان ڈویژن پسماندہ علاقہ ہے جہاں بہت سے سرکاری دفاتر نہیں ہیں میڈیکل کالج کے قیام کی حمایت کرتاہوں ۔

اپوزیشن لیڈر میر یونس زہری نے کہا کہ رخشان ڈویژن میں میڈیکل کالج کاقیام وقت کی ضرورت ہے یہ بننا چاہئے۔ صوبائی وزیرمیر عاصم کردگیلونے کہا کہ نصیرآباد ڈویژن میں بھی میڈیکل کالج قائم کیاجائے تاکہ علاقے کے لوگوں کو تعلیم کے حصول میں سہولت میسر آسکیں۔ رکن اسمبلی دستگیر بادینی نے کہاکہ رخشان ڈویژن پاکستان کاسب سے بڑا ڈویژن ہے غریب میڈیکل کے طلباء کو کوئٹہ آکر پڑھنا مشکل ہے اس لئے کالج کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

صوبائی وزیرحاجی علی مددجتک نے کہاکہ میڈیکل کالج کے قیام کی قرارداد کی حمایت کرتاہوں ہرڈویژن میں ایک میڈیکل کالج ہوناچاہیے تاکہ ڈویژن کی سطح پر نوجوانوں کو سہولت میسر آسکے۔ رکن اسمبلی رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ اپوزیشن کی قراردادوں کو بھی ٹیبل ہوناچاہیے مگرایسانہیں ہوتا تعلیمی اداروں کومستحکم کریں اور کالج کی حمایت کرتا ہوں ۔

صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ تعلیمی ادارے بنانے سے وسائل کم نہیں ہوں گے وسائل پیداکرنے کا کام ریاست کاہے ،وسائل بڑھنے سے کس نے روکاہے تعلیمی اداروں کی ٹھوس بنیادیںرکھی جائیں تو اس کافائدہ مستقبل میں ملے گا۔ بلوچستان اسمبلی نے رخشان ڈویژن میں میڈیکل کالج کے قیام کی قرارداد ترمیم کے ساتھ مشترکہ طور پر منظور کرلی ۔ اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی میر زابد ریکی نے کہا کہ فیصلہ سازی کے عمل میں ایوان کو نظرر انداز کیا جارہاہے اسمبلی کے اختیارات کو ئی بائی پاس نہیں کرسکتا، لیویز فورس کی کارکردگی کافی بہتر ہے مزید تین اضلاع لسبیلہ، حب، گوادر کو بی ایریا سے اے ایریا میں تبدیل کیا گیا تھا اور اب مزید 10 سے 15 اضلاع کو اے ایریا میں تبدیل کیاجارہا ہے۔

رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ لیویز ایریا میں کرائم کی شرح کافی کم ہے بجٹ میں60ارب کے بجٹ میں سے 18 ارب روپے لیویز کو دیئے جاتے اور اس کے پاس 85 فیصد علاقہ جبکہ پولیس کے پاس 15 فیصد صوبے کا علاقہ ہے۔ ایک ہفتہ قبل 7افراد گوادرمیں قتل کیا گیا جو پولیس کا علاقہ تھا پولیس نے تا حال پولیس آفیسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری نے کہا کہ خضدار میں جمعیت کے رہنما کو قتل کرنے سمیت 4واقعات پولیس ایریا میں ہوئے پولیس نے کسی کی گرفتاری نہیں کی قتل کے واقعات کی تفتیش کرنے میں بھی پولیس ناکام ہے،لیویز نظام ختم نہ کیا جائے کیونکہ پولیس کو زیادہ وسائل دیئے جارہے ہیں اس حوالے سے اسمبلی میں بات کی جائے ان کا کہنا تھا کہ چیف سیکرٹری اراکن اسمبلی سے ملنے سے گریزاں کیوں ہیں اسپیکر لیویز نظام اور چیف سیکرٹری کے رویے کا سنجیدگی سے نوٹس لیںوہ صوبے کے ملازم ہیں اور ہمارے وسائل سے تنخواہ لیتے ہیں چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس سمیت دیگر سیکرٹریز کو اسمبلی میں آنا چاہئے تاکہ تمام معاملات کو بہتر طور پر حل کیاجاسکے۔

میرے علاقے میں ایک ہفتے میں چار وارداتیں ہوئی ہیں جو پولیس کا علاقہ ہے۔ صوبائی وزیر شعیب نوشروانی نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے تحفظات کو سنے گئے ہیں ہمیں اپنے آفیسران پر بلا وجہ غصہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اچھے الفاظ میں بات کرنی چاہئے۔ اس معاملے کو وزیراعلی کے سامنے رکھیں گے کوئی بھی پالیسی میٹر کابینہ میں پیش ہونے کے بعد ایوان میں آتا ہے بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے کے حوالے سے اس پالیسی میٹر کو ایوان میں آنا چاہئے ۔

رکن صوبائی اسمبلی میر اسد اللہ بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ قدرتی گیس بلوچستان کے علاقے سوئی میں 1952 میں دریافت ہوئی۔ اور 1955 میں اس کی ترسیل ملک کے دیگر صوبوں کو شروع ہوئی ۔ اور اس وقت بلوچستان سے قدرتی گیس کی مجموعی پیداوار 56 فیصدتھی جس سے پورا ملک استفادہ حاصل کر رہا تھا۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قدرتی گیس بلوچستان سے دریافت ہوئے ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک تک بلوچستان کے 36 اضلاع میں سے صرف چند اضلاع کو قدرتی گیس کی سہولت میسر ہے۔

جبکہ صوبہ کے دیگر اضلاع کے لوگ اب تک قدرتی گیس جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ مزید یہ کہ جن علاقوں کو قدرتی گیس کی سہولت فراہم کی گئی ہے وہاں بھی کم پریشر اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث ان علاقوں کے لوگ سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت جس صوبے میں قدرتی گیس کے ذخائر واقع ہوں ان ذخائر سے ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں اس صوبہ کو پاکستان کے دیگر حصوں پر ترجیح حاصل ہوگی۔

لیکن بد قسمتی سے قدرتی گیس ملک کے دیگر صوبوں کے کونے کونے تک پہنچادی گئی ہے۔ لیکن بلوچستان کے تمام اضلاع کو تاحال قدرتی گیس کی سہولت سے محروم رکھ کر آرٹیکل 158 کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ دوسری جانب اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل (3) 172 کے تحت موجودہ پابندیوں اور وجوب کے مطابق معدنی تیل اور قدرتی گیس یا علاقائی سمندر سے ملحق ہوں وہ اس صوبے اور وفاقی حکومت کو مشترکہ اور مساوی طور پر تفویص کر دئیے جائیں گے۔

لیکن اس حقیقت کے باوجود بلوچستان کے صرف دو فیصد لوگ قدرتی گیس استعمال کر رہے ہیں جبکہ باقی صوبے کے تمام لوگ قدرتی گیس جیسی نعمت کی سہولت سے محروم ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ مزید براں سندھ اور بلو چستان قدرتی وسائل کے لحاظ سے امیر صوبے ہیں۔ لیکن یہاں کے لوگ قدرتی گیس کے حصول کی بابت بہتر معیار زندگی برقرار رکھنے سے محروم ہیں۔لہذا بلوچستان کے عوام کی مشکلات کو مد نظر رکھ کر یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کے وہ تمام اضلاع جن میں قدرتی گیس کی سہولت میسر نہیں وہاں پر فی الفور LPG پلانٹ لگانے کو یقینی بنائے تا کہ بلوچستان کے غریب عوام کو قدرتی گیس سے متعلق مشکلات کا ازال ممکن ہو سکے میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی گیس سے پنجاب کے کارخانے چل رہے ہیں پنجاب کو گیس تو دیا گیا مگر ڈیرہ بگٹی کے عوام آج بھی اس سہولت سے محروم ہیں ہمارے ایوان کی یہ پوزیشن ہے کہ رولنگ کے باجود چیف سیکرٹری اجلاس میں نہیں آتے وفاق کی جانب سے صوبے کے واجبات ادا نہیں کئے جارہے ہمارے وسائل پر ہمارا آئینی حق ہے ہمارے ساتھ کالونی کی طرح سلوک کیاجارہاہے ہر دور حکومت میں ہمارے ساتھ وعدے کئے گئے ڈکٹیٹروں کا دور ختم ہوا تومعافی مانگ کر واپس چلے گئے اٹھارویں ترمیم کے بعد ہمیں بھیک نہیں ہمارا حق چاہیے اپنے حقوق کے لیے گوادر سے چمن تک جدوجہد کرینگے ڈائیلاگ کا عمل شروع کرنے کیلئے افغانستان سے سبق سیکھیں اپنے حقوق کیلئے عدالت جاوں گا انصاف نہ ملا تو عوام کے ساتھ سڑکوں پر آئوں گا کیونکہ بلوچستان نو آبادیاتی طرز پر چلایا جارہاہے اس لئے ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہا۔

انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ معدنیات پر پہلا حق علاقے کے عوام کا ہوتا ہے پی پی ایل صوبے کے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار نہیں، بجٹ میں ہمارے پاس دس کلو میٹر روڈ بنانے کے پیسے نہیں ہے وفاق این ایف سی میں طے شدہ حصہ دینے سے انکاری ہے وفاق ہمیں اجازت دے ہم کوئلہ سے تین گرڈ اسٹیشن بناسکتے ہیںکوئٹہ سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ 55ہزار روپے کا ہوگیا ہے بلوچستان کو لاوارث سمجھ کر خسارے کے محکمے اور ملازمین دیئے گئے ہیںلیکن وسائل اور واجبات نہیں دیئے جارہے اس لئے ہمیں اٹھارویں ترمیم سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہواہے۔

صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے اپنے الفاظ کے ذریعے اسمبلی کی توہین کی ایوان میں کوئی فضول بات کرنے نہیں آتا گیس کے حوالے سے قرار داد کی حمایت کرتے ہیں وسائل کے باوجود بلوچستان غریب صوبہ ہے گیس جہاں نکلتی ہے اس ضلع تک کو نہیں ملتی ماڑی گیس کمپنی نے بھی اپنے علاقے میں گیس فراہم نہیں کی زیارت میں گیس فراہم کی ہے لیکن پریشر نہیں ہے زیارت میں گیس پائپ لائن برائے نام ہے گیس کے متعلق پیش کردہ قرار داد پورے ایوان کی جانب سے مشترکہ قرار داد بنائی جائے ۔

بلوچستان اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کو سستے اور ماحول دوست ایندھن کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے جن اضلاع میں سوئی گیس کی سہولت نہیں وہاں فوری طور پر اپل پی جی پلانٹ لگائے جائیں اس موقع پر ملک نعیم بازئی قرار داد پر بات کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایوان میں دوران اجلاس کورم کی نشاندہی پر اسپیکر کی ہدایت پر گھنٹیاں بجھائی گئیں اور کورم پورا نہ ہونے کے باعث اسپیکر نے 20 مئی کی صبح 11 بجے تک اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا ۔