ایجنسیاں دودھ کی دھلی نہیں ،عدلیہ سے بھی بہت کچھ صحیح اورغلط ہوتا رہا ہے ، رانا ثناء اللہ

منگل 21 مئی 2024 22:05

ایجنسیاں دودھ کی دھلی نہیں ،عدلیہ سے بھی بہت کچھ صحیح اورغلط ہوتا رہا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 مئی2024ء) وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ایجنسیاں دودھ کی دھلی نہیں ،عدلیہ سے بھی بہت کچھ صحیح اور غلط ہوتا رہا ہے ، جج صاحبان کا کام اس قسم کی تقاریر کرنا نہیں ہے، عدالتیں صرف سوال اٹھانے تک محدود ہوجائیں تو فیصلے کون کرے گا،احمد فرہاد کی گمشدگی کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، آج تک کتنی بار لوگ غائب ہوئے پھر واپس آگئے کسی عدالت نے اس پر سوال کیوں نہیں اٹھایا۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عدالتیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین ساتھ بیٹھیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس وقت ہر ادارہ یا ادارے میں بیٹھا فرد اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام نہیں کررہا، اس وقت دوسرے کے مینڈیٹ میں جاکر کام کرنے میں دلچسپی ہے، عدلیہ سے بھی بہت کچھ صحیح اور بہت کچھ غلط ہوتا رہا ہے، ایجنسیاں بھی دودھ کی دھلی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

رانا ثناء اللہ نے شاعر احمد فرہاد سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارروائی پر کہا کہ ریمارکس اور ازخود نوٹسز سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، جج صاحبان کا کام اس قسم کی تقاریر کرنا نہیں ہے، عدالتیں صرف سوال اٹھانے تک محدود ہوجائیں تو فیصلے کون کرے گا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو جب گردن سے پکڑ کر نکالا گیا اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں کیا ایجنسیوں کے لوگ بیٹھے تھی رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ نواز شریف موجودہ صورتحال میں ہر طرح کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

ہمارے معاملے میں سب کو پتہ ہے عدالتیں اور معزز ججز کہاں کھڑے تھے اور ان کے ریمارکس کیا ہوتے تھے،اس وقت ہر ادارہ یا ادارے میں بیٹھا فرد اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام نہیں کررہا، اس وقت دوسرے کے مینڈیٹ میں جاکر کام کرنے میں دلچسپی ہے، معزز جج محسن اختر کیانی نے جو ریمارکس دیئے، جج صاحبان کا کام اس قسم کی تقریر کرنا نہیں بلکہ فیصلے دینا ہے، اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو فیصلہ بنائیں، احمد فرہاد کا اغوائ افسوسناک ہے ہر صورت ان کی بازیابی ہونی چاہیے،احمد فرہاد کی گمشدگی کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، عدالت کو آئیں و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آج تک کتنی بار لوگ غائب ہوئے پھر واپس آگئے کسی عدالت نے اس پر سوال کیوں نہیں اٹھایا، عدالت نے کبھی واپس ا?نے والے افراد کو بیان ریکارڈ کروانے کیلئے کیوں نہیں بتایا۔