=لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 جون2024ء)
اقلیت رائٹس فورم کے زیر اہتمام جسٹس اے کارنیلئس کانفرنس کاا نعقاد ہوا
،سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ نے اقلیتوں کو ان کے مخصوص انداز میں سلام کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستان کی ساری اقلیتیں ہمیں پیاری ہیں ہم سب ان سے پیار کرتے ہیں، آئین میں اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے برابر حقوق ہیں،چاہتے ہیں کہ
سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جج آئیں ، آپ کیلئے
اقلیت کالفظ مناسب نہیں یہ تو آپ کی تعداد کا ظاہر کرتاہے،آئین کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں، آئین میں اقلیتوں کے حقوق ہم سے کئی لحاظ سے زیادہ ہیں،کم نہیں ہیں،انھیں اضافی تحفظ دیا گیا ہے،بھائی چارے کے بنیادی تقاضے مدنظررکھنا لازمی تقاضاہے
،دنیا کا واحد پرچم
پاکستان کا ہے جس میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتاہے،میں یہ کہوں گا چاند اور ستارہ بھی ہماری اقلیتیں ہیں،ریاست مدینہ کے آئین میں اقلیتوں کے تحفظ کومحفوظ کیاگیا،اسلام میں مذہبی رواداری اور اقلیتوں سے محبت کی ایک تاریخ موجودہے،نبی اکرم نے اپنے عمل سے اقلیتوں کیحقوق کاتحفظ کیا
،یورپی یونین کی رپورٹ کیمطابق
پاکستان میں مذہبی تشدد چوتھے نمبر پر ہے،ہم گھر میں بیٹھے ہیں تو اسے مل کر ہمیں ہی ٹھیک کرنا ہے،افسوس کی بات ہے کہ
دنیا میں ہم مذہبی آزادی میں نچلے نمبروں پر رکھے جاتے ہیں،ہمارا اسلام اقلیتوں سے محبت کا درس دیتا ہے،اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے،جس نے جو مذہب اختیار کرنا چاہے وہ آزادہے،ریاست مدینہ کی مثال سب کے سامنے ہے جس میں سب مل کر رہتے تھے،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا حکم دیا، جڑانوالہ میں اقلیتوں کے گھر جلائے گئے،موجودہ چیف جسٹس
قاضی فائز عیسی اس جگہ گئے،عدلیہ نے ہمیشہ اقلیتوں کے تحفظ کیا،ہمارے معاشرے میں برداشت ہونا ضروری ہے،ہمیں ایک دوسرے کا نکتہ نظر سن کراسے برداشت کریں اسی صورت ہم آگے جا سکتے ہیں،وفاقی
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اقلیتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے ان کے حوالے سے قانون سازی کر رہے ہیں،اقلیتوں کے حوالے سے جو کمیشن بن رہا ہے اسے ہیومن رائٹس کے تحت ہونا چاہیے، اقلیتوں کے خصوصی قوانین کوکابینہ کے روبروپیش کیاجائیگا،بچوں کی
شادی کے حوالے ے اقلیتوں کی تجاویز کے مطابق قوانین کو پرکھا جائے گا،جسٹس اے آرکارنیلئس نے گھٹن کے ماحول میں بہترین فیصلے دئیے،جسٹس
تصدق جیلانی نے
ازخود نوٹس روکے رکھااور واحد
ازخود نوٹس اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے لیا،سماجی تبدیلی یکدم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ آتی ہے
،پاکستان کامذہبی رواداری کاکلچر افغان جنگ کے بعد تبدیل ہوا
،پاکستان کارواداری کاکلچر کبھی ایسا نہیں تھا جو آج دکھائی دیتاہے،عدلیہ نے اپنے فیصلے سے ریاست کو اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا،اسلام اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کرتاہے،بانی
پاکستان نے ایک پرچم کے نیچے سب کو اکٹھاکیا،حکومتی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کیلئے
وزیراعظم نے خاص طور پر مجھے انسانی حقوق کا قلمدان سونپا،اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بل مباحثے کے بعد دوبارہ تیار کیاہے،،اس بل کی تیاری میں تمام اقلیتوں سے مشاورت کی ہے،اعلی عدلیہ میں اقلیتی جج ضرور ہونے چاہئیں،جب قلمدان سنبھالا تو یہ فیصلہ کیا کہ پرانے تمام معاملات حل کروں گا،ہم سب کی خواہش اور نیت ہے کی اقلیتوں کی اعلی عدلیہ میں نمائندگی ہونی چاہیے،ماضی میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ججوں نے بہت اچھا کام کیا،ہم میرٹ پر پورا اترنے والے اقلیتی قانون دانوں کو عدلیہ میں شامل کریں گے،چھوٹی عمر کی
شادی روکنے کے حوالے سے
بجٹ کے بعد قانون سازی ہو گی
،وفاقی بجٹ کی تیاری میں مصروف ہیں ،عوام کیلئے
بجٹ میں ریلیف ملنا چاہئے،سب کو پتہ ہے کہ
پاکستان بڑے مشکل
معاشی دور سے گزر رہاہے،ٹیکس اصلاحات
وزیراعظم کا مشن ہے،وہ طبقہ جوکاروبار کرتاہے مگر ٹیکس نہیں دیتاانہیں ٹیکس نیٹ میں لایاجائے،عام آدمی تک ٹیکس کیفوائد اسی طرح منتقل کئے جاسکتے ہیں،جوکروڑوں کے ٹیکس دیتے ہیں ان کے ٹیکس شرم ناک حد تک کم ہیں،سیاست کیلئے چھوٹی اور گھناونی باتیں نہیں ہونی چاہئیں،ملکی مفاد کو سب سے مقدم اور عزیز ہوناچاہئیے،ڈیجیٹل میڈیا رائٹس آنے ضروری ہیں،جو کچھ ہمارے یہاں اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوا کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے،ہمارا پرنٹ میڈیا ستر سال سے ریگولیٹڈ تھا،کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ پرنٹ میڈیا میں کسی شخص کے بارے غلیظ گالی لکھ دی گئی ہو،کبھی کسی ٹی وی چینل یاٹاک شوپربھی ایسا ہوتا نہیں دیکھا،کیا
سوشل میڈیا ایپس پر یہ نہیں ہورہا، کتنی غلیظ فحش گالیاں دی جاتی ہیں،آزادی اظہار کاغلط استعمال نہیں ہوناچاہئیے،آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ آپ کسی پرفتوی ٰلگائیں،قانون کی تشکیل کیلئے تمام فریقین سے مشاورت کی جائے گی،قانون کی تشکیل کیلئے قائم کمیٹی یہ جائزہ لے چکی کہ آئینی تحفظ پامال نہ ہو،بل
اسمبلی میں آئے گامباحثہ ہوگا اور کئی نکات تبدیل بھی ہوں گے،فوجداری قانون کا کبھی بھی ماضی سے اطلاق نہیں ہوتا،میٹا
،گوگل، ٹک ٹاک والوں سے دوسال سے بات چیت چل رہی تھی،جب بل آئے گا تو بڑا بیلنس ہوگا،چیزوں کو بہتر کرنے کی طرف ہی جائیں گے،اس قانون کے حوالے سے خطے کیدیگر ممالک کے قوانین کابھی جائزہ لیاجارہاہے،ٹربیونلزکیریٹائرڈ ججز حلف لے کر ہزاروں مقدمات نمٹاچکے ہیں، اسی حلف کی بنیاد پر انہوں نے مقدمات نمٹانے ہیں اس میں کسی خوف کی کوئی بات نہیں ہے
،لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ
پاکستان میں تین بڑے جج تھے جن میں سے ایک نام جسٹس کارنیلس کا ہے، جسٹس اے آر کارنیلئس کی عدالتی خدمات ناقابل فراموش ہیں، انھوں نے اعلیٰ اور ضلعی عدلیہ نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کیلئے فیصلے دئیے،عدلیہ نے اقلیتوں کے حقوق کیلئے کمیشن قائم کیا،عدلیہ نے حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے کی ہدایات کیں،ہرشہری کو مذہبی آزادی کی ضمانت آئین دیتاہے،برداشت کے کلچر کوفروغ دے کراقلیتوں کے حقوق کاتحفظ یقینی بنایاجاسکتا ہے،اقلیتیوں کے حقوق کا معاملہ ججوں کے دلوں کے قریب ہے
،سپریم کورٹ ہو یا ہائیکورٹ جہاں اقلیتوں کے تحفظ کی بات آئے ہم دو قدم آگے ہو کر سوچتے ہیں،سابق چیف جسٹس
تصدق حسین جیلانی کی ججمنٹ ہمیشہ کام آتی رہے گی،اسلام میں انسانیت کے حقوق کو سب سے پہلے ہیں
،پاکستان میں بہت سے کیسز ایسے ہوئے ہیں جو اقلیتوں کے تحفظ کی مثال بن گئے،عدلیہ مذہب زات برادری سے ہٹ کر انصاف فراہم کرتی ہے
،پاکستان میں اقلیتوں کے حقوقِ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا،سابق چیف جسٹس
تصدق جیلانی نے کہا آئین ہی وہ راستہ ہے جس کیذریعے ہم سب کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناسکتے ہیں،اقلیتوں کے بنیادی حقوق کاتحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے،سماجی انصاف، مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی سے ہی معاشرے آگے بڑھتے ہیں،اقلیتوں کے حقوق کیایک کیس میں
عدالت نے ریاست کوآٹھ ہدایات جاری کیں،جن میں نصاب،قلیتوں کیخصوصی اداروں کی تشکیل اور عبادت گاہوں کاقیام شامل تھا،میں نے بطور
چیف جسٹس پشاور چرچ دھماکہ پر
ازخود نوٹس لیا،اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے سپیشل فورس بننی چاہیے، صدر
لاہور بار ایسوسی ایشن منیر حسین بھٹی نے کہا کہ اقلیتوں کو آئین کے مطابق حقوق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے ،ریاست کا فرض بنتا ہے جہاں پر اقلیتوں کے حقوق کی خلاف وزری ہوئی ہو وہاں قانون کے مطابق ایکشن لے،ریاست فوری انصاف کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات بھی کرے ،ریاست نے آئین میں تمام اقلیتوں کو حقوق فراہم کیے ہیں ،چیئر مین نیشنل چرچز کونسل
پاکستان ڈاکٹر بشپ آزاد نے کہا کہ اقلیتوں کو مکمل تحفظ ملنا چاہیے،کوئی بھی مذہب ہو اس کو اس کے حقوق ملنے چاہیے،ا?ئین
پاکستان تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے،انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے،بانی
پاکستان نے اقلیتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا ،1973 کے ا?ئین کو قائد اعظم
محمد علی جناح کے منشور کے مطابق بنایا گیا،اقلیتوں کے مسائل حل ہونے چاہئیں
پاکستان ہم سب کا ہے،مذہب اور ذات پات سے ہٹ کر انسانی حقوق سب سے زیادہ ضروری ہوتے ہیں،کچھ واقعات ایسے ہوئے جو دل خراش تھے،سانحہ جڑانوالہ ایک افسوسناک واقع تھا،ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں،ہمیں عدالتوں سے انصاف ملتا ہے،اقلیتی نوجوانوں نے
پاکستان کی ترقی میں حصہ ڈالا ہے،ہماری درخواست ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے،تمام مذاہبِ کی عبادت گاہوں کا کا تحفظ ضروری ہے،ہم سب کو مل کر
پاکستان کی ترقی کے لیے چلنا ہو گا،جج فیڈرل شریعت
کورٹ آف
پاکستان جسٹس سعید انور نے کہا کہ آئین
پاکستان نے ہر دور میں اقلیتوں کو تحفظ دیا ہے، آئین
پاکستان سب مذاہب کے لیے برابر ہے ،اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جاتا ہے اور دیا جاتا رہے گا،
پاکستان کی ترقی کے لیے اقلیتوں کا کردار شامل ہے، آئین میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے شقیں موجود ہیں، عدالتوں میں انصاف سب کے لیے یکساں ہیں
،پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کو حقوقِ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے،تمام اداروں میں اقلیتی نوجوان اپناکردار ادا کر رہے ہیں، انسانی حقوق میں کوئی فرقہ مذہب میں فرق نہیں ہوتا ہے
،پاکستان میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اچھے عہدوں پر فرائضِ سر انجام دے رہے ہیں، قائد اعظم
محمد علی جناح کے نظریہ کے مطابق حقوق دیئے جا رہے ہیں، قائد اعظم
محمد علی جناح نے
پاکستان میں رہنے والوں کو برابر حقوق دئیے اسلام انسانی حقوق پر زور دیتا ہے،
دنیا میں
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں تمام لوگ ایک پرچم تلے متحد ہیں
پاکستان میں بسنے والے تمام شہری
پاکستان کا سرمایہ ہے۔