معروف کالم نگار عالمگیر آفریدی نے یونیورسٹی آف پشاور سے پاکستان سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر لی

پیر 26 اگست 2024 20:10

ج*پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اگست2024ء) خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پروٹوکول،وزیٹنگ فیکلٹی پاکستان سٹڈیز اور معروف کالم نگار عالمگیر آفریدی نے یونیورسٹی آف پشاور سے پاکستان سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر لی۔ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ''جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت: میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کا تقابلی جائزہ 2009- 1972 '' تھا۔

جب کہ ان کے سپر وائیزر پاکستان سٹڈی سنڈی سنٹر یونیورسٹی آف پشاور کے سابق ڈائریکٹر اور ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام تھے۔ عالمگیر آفریدی کا پبلک ڈیفنس گزشتہ روز پاکستان سٹڈی سنٹر یونیورسٹی آف پشاور میں منعقد ہوا جس میں بیرونی ممتحنین کے فرائض قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نجیب اللہ اور سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی آف پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ابرار نے انجام دیئے، اندرونی ممتحن پاکستان سٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر اور سپروائیزر پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام تھے۔

(جاری ہے)

جب کہ اس موقع پر پاکستان سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شہباز خان خٹک،فیکلٹی،سٹاف اور طلباء بھی موجود تھے۔واضح رہے کہ زیر نظر تحقیقی مقالے میں میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کی قیادت کا تبدیلی قیادت (ٹرانسفارمیشنل لیڈر شپ تھیوری) کے نظریہ کے ذریعے تجزیہ کرنے سے ان کے متعلقہ نقطہ نظر اور اثرات کے بارے میں قابل قدر بصیرت ملتی ہے۔

میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے تقابلی مطالعہ پر تبدیلی کی قیادت کے نظریے کو لاگو کرنے سے کوئی بھی پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی قیادت، تنظیمی ڈھانچے اور جماعت اسلامی کے انٹراپارٹی انتخابی نظام کے بارے میں عام فہم حاصل کر سکتا ہے۔یہ مطالعہ میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد دونوں کی شخصیت کے خدوخال، ان کی قیادت کے انداز، حکمت عملی، جماعت اسلامی اور اس کے ارکان پر ان کے فیصلوں اور پالیسیوں کے اثرات اور قومی سیاسی منظر نامے کے بارے میں گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔

اسی طرح اس مطالعے میں کئی دہائیوں کے دوران کسی سیاسی جماعت کی رفتار کو تشکیل دینے میں موثر قیادت کی تبدیلی کی صلاحیت کو متاثر کرنے، اختراع کرنے اور بااختیار بنانے کی صلاحیت کو بھی زیر بحث لایاگیاہے۔اس تحقیقی مطالعے میں مخلوط طریقہ کار (مکس میتھڈ) کو استعمال کیاگیاجس میں کوانٹی ٹیٹیواور کوالیٹیٹو دونوں طریقوں کو شامل کیا گیا۔

یہ مخلوط طریقہ کار قائدانہ حرکیات کی اہم پیچیدگیوں کو تلاش کرنے کے لیے خاص طور پر موزوں ہے۔مزید برآں، مطالعہ نے میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے دور میں بالترتیب قائدانہ انداز اور پالیسی کی رفتار میں امتیازات اور مماثلتوں کی چھان بین کے لیے تقابلی تجزیہ کے فریم ورک کا استعمال کیا۔کوانٹی ٹیٹیو اعداد و شمار جمع کرنے کے لیییامانی فارمولے کو ارکان جماعت اسلامی کے نمونے کے سائز کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ مرد 339+خواتین 57=کل 396 سیمپل سائیز پر مشتمل تھا۔

مزید برآںمجموعی طور پر 40 گہرائی والے نیم ساختہ انٹرویوز کیے گئے، جن میں مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسے جماعت اسلامی اوردیگر سیاسی جماعتوں کے راہنما، ماہرین تعلیم، صحافی، وکلاء، سول سوسائٹی کے اراکین، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، تاجر، اور میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمدکے خاندان کے افراد شامل تھے۔ جبکہ مذید سائنٹفک ڈیٹا جمع کرنے کے لیئے گورنمنٹ کالج پشاور اور قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں دو ایف جی ڈیز کا انعقاد بھی کیا گیا جن میں بالترتیب 10اور12متعلقہ ماہرین نے شرکت کی۔

اس تحقیق میں ٹرانسفارمیشنل لیڈرشپ تھیوری کا استعمال کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ رہنما کس طرح پیروکاروں کو نئے اہداف حاصل کرنے کی ترغیب دے کر سماجی تبدیلی کو متاثر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اگر ہم ان دونوں معتبر راہنمائوں کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو جماعت اسلامی نے 1970 کی دہائی کے بعد کسی بھی انتخاب سوائے 2002میں ایم ایم اے کی جزوی کامیابی کے کوئی بڑی پیش رفت نہیں کی۔

2013، 2018 اور 2024 کے انتخابات میں اس کی کارکردگی سے اس امر کی واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ جماعت انتخابی نتائج کے نقطہ نظر سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ یہ صورتحال جماعت اسلامی پاکستان جیسی ملک کی پرانی،منظم، جمہوری، فرقہ واریت اورلسانیت سے پاک ملک گیر جماعت کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان اورلمحہ فکریہ ہے۔