آئینی عدالت اور ترامیم کا مقصد

عام آدمی کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی ہے، قانون بنانا پارلیمان کا کام ہے، بیرسٹر عقیل ملک

جمعرات 19 ستمبر 2024 18:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 ستمبر2024ء) مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے پاکستان میں عدالتی اور آئینی اصلاحات کے لئے اتحادیوں، اپوزیشن ، وکلاء قیادت کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے ، حکومت چاہتی ہے کہ یہ ترامیم کثرت رائے سے منظور ہوں ، ماضی میں جوڈیشل ایکٹوزم کے نام پر ایسے فیصلے سامنے آئے جنہوں نے ملکی معیشت اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچایا ، مجوزہ آئینی ترامیم کا مقصد ان خامیوں کو دور کرنا اور عوام کو تیز تر اور منصفانہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، تاکہ عام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے، آئین ، قانون بنانا اور ترمیم کرنا پارلیمان کا کام ہے ۔

وہ جمعرات کو پی ٹی وہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔

(جاری ہے)

مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق کچھ خدوخال اور نمایاں خصوصیات سے آگاہ کرنے کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وکلاء احتجاج کی طرف جا رہے ہیں، حالانکہ گزشتہ روز ہونے والی گرینڈ مشاورت میں تمام سٹیک ہولڈرز کی شرکت تھی، جس میں سپریم کورٹ بار کونسل سمیت صوبائی بار کونسلز اور اسلام آباد بار کونسلز کے نمائندگان بھی شامل تھے۔

اس مشاورت کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ آئین سازی اور قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمان کا ہے۔ پارلیمان آئین میں ترامیم اور قوانین کی تشکیل کا مجاز ادارہ ہے جبکہ عدالتیں ان قوانین کی تشریح کرتی ہیں۔ اگر کوئی قانون آئین سے متصادم ہو، تو عدالت اسے ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بار کونسلز کے ذمہ داران کو مشاورت میں شامل کیا گیا ہے اور آئینی ترمیمی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو سات دنوں میں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرے گی۔

بیرسٹر عقیل ملک نے ماضی کے جوڈیشل ایکٹوزم پر بھی بات کی اور کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جوڈیشل ایکٹوزم کے نام پر ایسے اقدامات کیے گئے جن سے ملکی معیشت اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچا۔ خاص طور پر عام شہریوں کو انصاف کی جلد اور بروقت فراہمی میں تاخیر ہوئی، یہاں تک کہ کئی کیسز کو سننے میں 20 سے 25 سال لگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی کوششیں جاری ہیں اور ان کوششوں کو سراہا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم قانونی اصلاحات کے عمل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مشاورت کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے اور اب تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش جاری ہے۔بیرسٹر عقیل ملک نے عالمی سطح پر پاکستان کی عدالتی درجہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے معاملے میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے، اور ہمیں عدالتی اصلاحات کے ذریعے اس درجہ بندی کو بہتر بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈیمز اور ریکوڈک جیسے کیسز میں پاکستان کو عالمی فورمز پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم کسی شخصیت کو نظرانداز نہیں کر رہے اور نہ ہی کسی کو خصوصی طور پر شامل کر رہے ہیں، بلکہ جو بھی بہتر تجاویز پیش کرے گا، ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔بیرسٹر عقیل ملک نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ عام شہری کے کیسز کو بروقت نمٹایا جائے، چاہے وہ فوجداری، دیوانی، خاندانی یا سروس سے متعلق ہوں۔ آئینی عدالتوں اور ججز کی تقرری کے حوالے سے بھی مشاورت جاری ہے تاکہ عام شہریوں کو بروقت ریلیف فراہم کیا جا سکے۔