لیپ ٹاپ سکیم سمیت پنجاب حکومت کے 3 منصوبوں میں خامیوں کا انکشاف

سکیم کے تحت دیئے جانے والے لیپ ٹاپ مارکیٹ میں 18 سے 25 روپے ہزار میں دستیاب تھے لیکن صوبائی حکومت نے 45 ہزار 937 روپے تک کا ایک لیپ ٹاپ خریدا جو کئی گنا مہنگا تھا۔ رپورٹ کے مندرجات

Sajid Ali ساجد علی منگل 1 اکتوبر 2024 17:34

لیپ ٹاپ سکیم سمیت پنجاب حکومت کے 3 منصوبوں میں خامیوں کا انکشاف
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 01 اکتوبر 2024ء ) پنجاب حکومت کی لیپ ٹاپ سکیم سمیت 3 منصوبوں میں خامیوں کا انکشاف ہوگیا۔ اُردو نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے 3 بڑے فلیگ شپ منصوبوں لیپ ٹاپ سکیم، ٹورازم برائے معاشی استحکام اور سکلز ڈویلیمپنٹ فنڈ میں خامیاں سامنے آئی ہیں، قائداعظم یونیورسٹی میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ماہرین نے تینوں منصوبوں میں مختلف قسم کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی۔

بتایا گیا ہے کہ لیپ ٹاپ سکیم شروع کرنے سے پہلے اس کی فزیبیلیٹی سٹڈی نہیں کی گئی، اگر فزیبیلیٹی سٹڈی کی جاتی تو سکیم سے مستفید ہونے والوں کے بارے میں بہتر معلومات فراہم ہوتیں، یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ لیپ ٹاپس کی کن طلبا کو ضرورت ہے؟سکیم کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کے ماحول کو فروغ دینا تھا تاہم ان خصوصیات سے لیس یہ لیپ ٹاپ ایسے طلبا میں بھی تقسیم کردیئے گئے جو سماجیات، ریاضی اور بنیادی سائنس کے طالب علم تھے، ایسی سکیمیں کم آمدنی سے تعلق رکھنے والے سکولوں کے بچوں کو لیپ ٹاپ اور آئی ٹی آلات دینے کے لیے شر وع کی جاتی ہیں لیکن اس سکیم میں اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

(جاری ہے)

رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ سکیم کے لیے مہنگے لیپ ٹاپ خریدے گئے، پہلے فیز میں 37 ہزار 700 روپے فی یونٹ، دوسرے مرحلے میں 38 ہزار 338 روپے، تیسری بار 41 ہزار 289 اور چوتھے فیز میں 45 ہزار 937 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدے گئے حالاں کہ یہی لیپ ٹاپ اس تمام وقت میں عام مارکیٹ میں 18 سے 25 ہزار روپے میں دستیاب تھے، اسی طرح لیپ ٹاپس کی تقسیم کے وقت اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا گیا کہ جن علاقوں میں یہ فراہم کیے جا رہے ہیں وہاں انٹرنیٹ ہے یا نہیں کیوں کہ مناسب انٹرنیٹ کے بغیر لیپ ٹاپس کی فراہمی سے کسی ملک میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں بہتری نہیں لائی جاسکتی جب کہ لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے کئی طلباء نے انہیں مارکیٹ میں فروخت بھی کر دیا۔

بتایا جارہا ہے کہ ماہرین نے پنجاب حکومت کے ’سیاحت برائے معاشی استحکام‘ منصوبے کا بھی جائزہ لیا، یہ منصوبہ ورلڈ بنک کے فنڈ کی مدد سے جاری کیا گیا، اس منصوبے کو ابتدا میں مذہبی سیاحت پر استوار کیا گیا لیکن ایسا کرتے وقت یہ نہیں دیکھا گیا کہ اس کے ذریعے بنائے جانے والے انفراسٹرکچر کے نتیجے میں کیا فوائد حاصل ہوں گے اور مذہبی سیاحوں کا اور ان کے اخراجات سے حاصل ہونے والا ریونیو کتنا ہوگا، اس منصوبے کے ذریعے سیاحت کی صنعت کے کئی ایسے شعبوں کے لیے بھی خریداری کی جاتی رہی جو اس منصوبے کا حصہ نہیں تھے۔

ورلڈ بنک کی مارچ 2024ء کی رپورٹ سے پتا چلا کہ اس منصوبے کے تحت گورنر ہاؤس لاہور کے لیے گالف کارٹس خریدی گئیں جو ان 52 اخراجات میں شامل ہیں جن کا سیاحت کی ترقی کے اس منصوبے سے تعلق نہیں، ان کے لیے کی گئی خریداریوں اور بجٹ کے انتظام پر سوال اُٹھتے ہیں، علاوہ ازیں اس منصوبے کا بنیادی حصہ کرتارپور گردوارہ اس بنیاد پر اس سے الگ کر دیا گیا کہ اس کے لیے فنڈز کا انتظام مقامی وسائل سے کیا جائے گا لیکن اس سے پراجیکٹ میں پیچیدگیاں بڑھ گئیں کیوں کہ اس کے لیے جن دوسرے مقامات کا انتخاب کیا گیا وہاں اقتصادی فوائد اتنے نہیں تھے جتنے اس جگہ پر ہوتے، جب کہ نجی شعبے سے سیاحت میں 40 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے 8 مقامات پر 30 منصوبے بنائے گئے لیکن ان پر عمدلدرآمد نہیں ہوا۔

اسی طرح رپورٹ میں تیسرے منصوبے پنجاب سکلز ڈیویلپمنٹ فنڈ (پی ایس ڈی ایف) کی کارکردگی پر کہا گیا ہے کہ اس نے پانچ لاکھ 13 ہزار 8 سو بارہ افراد کی تربیت کی اور 600 سے زائد شعبوں میں2 ہزار 500 مقامات پر 700 نجی شراکت داروں کے ہمراہ مواقع پیدا کیے، تاہم اس میں غیر شفاف عوامل سمیت کئی دوسری خامیاں نوٹ کی گئی ہیں جن میں سے ایک غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار ہے، اس پروگرام کے لیے پائیدار وسائل کا بندوبست کیا جائے اور سرکاری فنڈ سے انڈوومنٹ فنڈ قائم کرکے اس کی سرمایہ کاری کے منافع سے معاملات چلائے جائیں، غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دیا جائے۔