حالیہ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اب تک 3000 سے زیادہ شہری ہلاک

یو این بدھ 6 نومبر 2024 20:30

حالیہ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اب تک 3000 سے زیادہ شہری ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 نومبر 2024ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ لبنان کی جنگ میں 3,000 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 34 روزہ مسلح تنازع میں ہونے والی ہلاکتوں سے 58 فیصد زیادہ ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، یکم نومبر کو ملک بھر میں اسرائیل کے حملوں میں 71 ہلاکتیں ہوئیں۔

گزشتہ ایک سال سے جاری اس کشیدگی کے باعث لبنان کے 13 لاکھ لوگوں نے اندرون و بیرون ملک نقل مکانی کی ہے۔

طبی سہولیات پر حملے

گزشتہ دنوں لبنان کے ساحلی شہر بارجہ میں اسرائیل کی بمباری میں 20 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ صور اور نباطیہ میں بھی حملے کیے گئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دارالحکومت بیروت کے غیتوئی ہسپتال میں 50 مریضوں کے علاج کے لیے جراحی کا سامان پہنچایا ہے۔

(جاری ہے)

یہ ایسے مریضوں کے لیے ملک کا واحد ہسپتال ہے جنہیں جلنے کے زخم آئے ہوں۔ اس ہسپتال پر جنگ سے پہلے بھی مریضوں کا بہت بوجھ تھا جس میں اب غیرمعمولی اضافہ ہو چکا ہے۔

Tweet URL

لبنان میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر عبدالناصر ابوبکر نے کہا ہےکہ اس ہسپتال کی مدد جاری رکھنا بہت ضروری ہے جہاں اب تک جنگ میں زخمی ہونے والے جن 40 لوگوں کا علاج کیا گیا ہے ان میں 25 بچے بھی شامل ہیں۔

لبنان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار عمران رضا نے ملک میں طبی سہولیات بشمول ایمبولینس گاڑیوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتالوں اور طبی مراکز کو مدد دینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں بین الاقوامی قانون کو پامال کیا جا رہا ہے، تاہم مشکل حالات کے باوجود طبی کارکن لوگوں کو مدد دینے اور ان کی جان بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔

زیرعلاج بچوں کی ہلاکتیں

'اوچا' نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں زیرمحاصرہ لوگوں کو انسانی امداد پہنچانے کی کوششوں کو متواتر ناکامی کا سامنا ہے۔ وسطی اور جنوبی غزہ میں 100 سے زیادہ باورچی خانوں کے ذریعے روزانہ چار لاکھ کھانے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ تاہم امداد کی عدم رسائی کے باعث یہ سلسلہ منقطع ہونے کا خدشہ ہے۔

شمالی غزہ میں طبی حالات بھی انتہائی مخدوش ہیں جہاں گزشتہ ہفتے کمال عدوان ہسپتال کو دو مرتبہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور العودہ ہسپتال کو ضروری طبی سامان فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی ریجنل ڈائریکٹر آڈیل خودر نے کہا ہے کہ کمال عدوان ہسپتال گویا زیرمحاصرہ جنگی علاقہ بن چکا ہے۔ علاقے میں نومولود بچوں کی طبی نگہداشت کی واحد سہولت اسی ہسپتال میں ہے اور اس پر حملے قابل مذمت ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہسپتال تک رسائی بہت مشکل ہو چکی ہے اور رواں ہفتے کیے جانے والے حملوں میں زیرعلاج بچے بھی ہلاک و زخمی ہوئے جبکہ آکسیجن اور پانی کی فراہمی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے۔

ناقابل تصور تباہی

یونیسف کے مطابق غزہ بھر اور بالخصوص شمالی علاقے میں ایک سال سے جاری بمباری اور ہسپتالوں میں بجلی اور جنریٹر چلانے کے لیے ایندھن کی عدم موجودگی کے باعث کم از کم 4,000 نومولود بچے ضروری طبی نگہداشت سے محروم رہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار محمد ہادی نے بتایا ہے کہ غزہ اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔

اس جنگ اور لوگوں کی تکالیف کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ غزہ میں جس پیمانے پر تباہی اور انسانی نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تصور ہے۔

دھماکہ خیز مواد کا خطرہ

'اوچا' کے مطابق، غزہ میں 42 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ اور بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز مواد بکھرا ہے جس سے لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ ملبے اور اَن پھٹے گولہ بارود کو ہٹانے کے لیے درکار سامان علاقے میں لانے پر پابندی عائد ہے۔

غزہ کے پانچوں انتظامی حصوں میں ناصرف سطح زمین پر بلکہ ملبے تلے بھی بارودی مواد بڑی مقدار میں موجود ہے۔ اس میں بم، مارٹر گولے، راکت، میزائل، گرینیڈ اور بارودی سرنگیں اور بڑی تعداد میں دیگر اسلحہ شامل ہے۔