راولپنڈی ویمن یونیورسٹی نے ری ویمپڈ سائنٹیفک آؤٹ لک آف 21st سینچری پر تیسری بین الاقوامی سائنسی کانفرنس کا کامیاب انعقاد

جمعرات 14 نومبر 2024 22:42

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2024ء) راولپنڈی ویمن یونیورسٹی نے ری ویمپڈ سائنٹیفک آؤٹ لک آف 21st سینچری پر تیسری بین الاقوامی سائنسی کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں باٹنی، کیمسٹری، کمپیوٹر سائنس، آئی ٹی، ریاضی، شماریات اور زوالوجی جیسے مختلف شعبوں سے وابستہ قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے محققین اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی، جس کا مقصد سائنسی ترقیات کا جائزہ لینا اور جدید عالمی چیلنجز پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر ضیاء القیوم ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے معاشرے کو فائدہ پہنچانے والی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اسکالرز کو بنیادی تحقیق پر توجہ دینے کی ترغیب دی جس سے حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایچ ای سی نے اس سال اپنی تحقیقی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے اور اب ہم اپنے تحقیقاتی بجٹ کا 30 فیصد بنیادی تحقیق کے لیے مختص کریں گانہوں نے ڈاکٹر انیلا کمال کی قیادت اور یونیورسٹی کی سائنسی تحقیق اور علمی خدمات کے فروغ کے عزم کو سراہا۔

راولپنڈی ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیلا کمال نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی ویمن یونیورسٹی خواتین کو سائنس میں بااختیار بنانے اور بین الشعبہ جاتی تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کی تعلیمی خدمات پر اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی کانفرنسز کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ''مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو اکٹھا کر کے ہم تخلیقی سوچ کو فروغ دینے اور جدید عالمی مسائل کے حل کی جستجو کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

''پروفیسر ڈاکٹر رؤف اعظم وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد نے کلیدی مقرر کے طور پر سائنسی ترقی آرٹیفیشل انٹیلیجنس،مشین لرننگ اور بگ ڈیٹا پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جدید سائنس کو معاشرتی اقدار کے ساتھ منسلک ایک اخلاقی فریم ورک کی ضرورت ہے جس کے ذریعے سسٹینیبلٹی سمیت اہم مسائل سے نمٹا جا سکے۔کانفرنس میں پاکستان سمیت دس سے زائد ممالک، بشمول اٹلی، سعودی عرب، جنوبی کوریا، برطانیہ، سویڈن، رومانیہ، پولینڈ، مصر، امریکہ، چین، اور ترکی کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے شرکت کی۔\378