Live Updates

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد میں تقریب کا اہتمام، سابق وزیر خارجہ انعام الحق کا کلیدی خطاب

جمعرات 5 دسمبر 2024 21:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2024ء) انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں سینٹر فار سٹریٹجک پرسپیکٹیو نے اسلام آباد کانکلیو 2024 کے پانچویں ورکنگ سیشن کا اہتمام کیا جس کا عنوان ”ملٹی لیٹرل ازم کا مستقبل“ تھا۔ سابق وزیر خارجہ انعام الحق نے اس موقع پر کلیدی خطاب کیا۔ دیگر مقررین میں انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی اور سماجی امور قوام متحدہ لی جونہوا، ڈائریکٹر جنرل نیشنل یونیورسٹی آف سائنسئز اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر اشفاق ایچ خان، ایسوسی ایٹ پروفیسر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر سلمیٰ ملک اور وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل اقوام متحدہ عمر صدیق شامل تھے ۔

سی ایس پی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نیلم نگار نے سیشن کی نظامت کی۔

(جاری ہے)

ورکنگ سیشن میں سفارت کاروں، ماہرین تعلیم، طلباء اور سول سوسائٹی کے ارکان نے شرکت کی۔ سابق وزیر خارجہ انعام الحق نے اپنے خطاب میں کثیر قطبی دنیا کی بکھری ہوئی نوعیت اور متنوع بیانیوں کے درمیان کثیرالطرفہ کو از سر نو متعین کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مغرب میں دائیں بازو کی پاپولزم، انتہائی قوم پرستی اور امیگریشن مخالف پالیسیوں سے درپیش چیلنجز کا ذکر کیا۔

انہوں نے ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کے کمزور ہونے، کاپ 29 جیسے عالمی معاہدوں میں اقوام متحدہ کے محدود کردار اور طاقتور ممالک کی خود غرضی کو تنقید کا نشانہ بنایا جو ساختی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں اور اجتماعی کارروائی میں رکاوٹ بنتے ہیں جس سے پاکستان جیسے ممالک نظامی غربت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سفیر لی جونہوا نے ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے اور پائیدار ترقی کے اہداف میں جڑے ہوئے موثر کثیرالجہتی کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا اور اس کوشش کے مرکز میں اقوام متحدہ کو دوبارہ متحرک کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے حالیہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل شفاف، جامع اور جوابدہ عالمی اداروں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جاری کثیر الجہتی بات چیت مالیاتی نظام میں اصلاحات، ڈیجیٹل تقسیم، موسمیاتی تبدیلی اور امن و سلامتی جیسے اہم مسائل پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی تعاون کی تجدید، جرات مندانہ اقدامات کو آگے بڑھانے اور کسی کو پیچھے نہ چھوڑنے والے جامع طریقوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

ڈاکٹر اشفاق ایچ خان نے برکس کی توسیع اور گلوبل سائوتھ میں اس کی اپیل پر توجہ مرکوز کی اور بلاک سیاست کے خلاف پاکستان کے مستقل موقف کا ذکر کیا۔ انہوں نے برکس کو جی سیون کے ایک اہم متبادل کے طور پر اجاگر کیا، 2001 میں ایک غیر رسمی تنظیم کے طور پر برکس کی ابتدا اور 2009 کے بعد روس کے سیاسی چیلنجز کے دوران اس کے عروج کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ 45 فیصد عالمی آبادی، 30 فیصد عالمی جی ڈی پی، 38 فیصد عالمی مینوفیکچرنگ، 25 فیصد برآمدات اور 50 فیصد تیل اور گیس کی پیداوار کے ساتھ برکس نے جی سیون کو اقتصادی طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے جس نے مغرب کو پریشان کیا ہے۔

اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے امریکی اقتصادی پابندیوں اور ڈالر کے غلبے سے عدم اطمینان اور ڈالر کی کمی اور متبادل مالیاتی اداروں جیسے اقدامات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ برکس اور نیو ڈویلپمنٹ بینک (این ڈی بی) میں شمولیت پر غور کرے، اسے مغرب کی مخالفت کے بجائے اقتصادی تنوع اور لچک کی جانب ایک قدم کے طور پر تیار کیا جائے۔

ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے کہا کہ منی لیٹرل ازم مشترکہ اہداف کے لیے متحرک موافقت کی اجازت دیتا ہے اور چین کے عروج کے ساتھ اس نے توجہ حاصل کی ہے کیونکہ مختلف ممالک بیجنگ کے اقتصادی اور فوجی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بلاکس تشکیل دیتے ہیں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے خاص طور پر مغرب کو متبادل اتحاد تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ منی لیٹرل ازم سٹریٹجک تبدیلیوں کا کیا جواب دیتا ہے جبکہ ای سی او جیسی مثالیں اس کے ارتقا کو ظاہر کرتی ہیں۔

ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ مستقبل کے حوالے سے نظریہ اپنائیں، افغانستان جیسی قوموں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیں اور ڈیجیٹل دور میں مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں پاکستان کی مطابقت اور موافقت کو محفوظ بنائیں۔ عمر صدیق نے اقوام متحدہ جیسے کثیرالجہتی اداروں کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ادارے اب دبائو کا شکار ہیں، کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل پر جمود پیدا ہو رہا ہے، عالمی عدم مساوات میں گہرا اضافہ ہورہا ہے، گلوبل سائوتھ ان چیلنجز سے غیر متناسب طور پر معاشی مشکلات سے دوچار ہے جبکہ کثیر جہتی فورم منصفانہ حل فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور عالمی مالیاتی نظام میں خامیوں کو دور کرنے پر زور دیتے ہوئے کثیرالجہتی کو مضبوط بنانے کے لیے اصلاحات پر زور دیا۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے قیام امن میں تعاون اور موسمیاتی اور مالیاتی امور پر قیادت کے ذریعے کثیرالجہتی کے لیے پاکستان کے ثابت قدم عزم کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اگلے سال آٹھویں بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شمولیت کی تیاری کر رہا ہے۔\932
Live پاک افغان کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات