آرٹس کونسل کے زیر اہتمام نامور شاعر، ادیب، نقاد اور ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی کی 100 ویں سالگرہ پر یادگار تقریب کا انعقاد

منگل 21 جنوری 2025 20:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2025ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام نامور شاعر، ادیب، نقاد اور ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی کی 100 ویں سالگرہ پر یادگار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت حامد شفقت نے کی، اظہارِ خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر فاطمہ حسن، اقبال لطیف، راجو جمیل، مرزا نصیر الدین، ڈاکٹر رخسانہ صبا ،حمیرا قصوری اور خالد معین شامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے۔

تقریب کا آغاز جمیل الدین عالی کی زندگی اور ان کے ادبی سفر پر مبنی دستاویزی فلم ’’خواب کا سفر‘‘ دکھا کر کیاگیا جسے ڈاکٹر فاطمہ حسن نے تحریر کیا تھا جبکہ پیش کش مراد جمیل کی تھی۔اس موقع پر حامد شفقت نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ جمیل الدین عالی جناح کیپ اور شیروانی پہنتے تھے، وہ اکثر کہتے تھے کہ نوابوں کے بچوں نے زیادہ کام نہیں کیا، لیکن جمیل الدین عالی وہ واحد نواب تھے جنھوں نے ادب کی دنیا میں بے شمار کام کیا۔

(جاری ہے)

وہ لوگوں کی معاشی مدد بھی کرتے تھے، ان کے دل میں اس ملک کے لوگوں اور غریب طبقے کے لیے گہرا درد موجود تھا، وہ سونے سے پہلے اس بات کی یقین دہانی کرتے تھے کہ سب نوکروں کو کھانا مل گیا ہو۔ معروف شاعرہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمیل الدین عالی نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح سمجھا اور میں بھی انھیں اپنے ماموں کی طرح سمجھتی تھی۔

انجمن ترقی اردو پاکستان کی ترقی میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا، اداکار راجو جمیل نے کہا کہ یہ آرٹس کونسل کی بڑائی ہے کہ اس ادارے کے بانی کو یاد رکھا۔ جمیل الدین عالی نے مجھے نصیحت کی کہ شاعر مت بنو۔ میں نے ان کے ساتھ انجمن ترقی اردو پاکستان میں کام کیا تھا اور یہ میری خوش نصیبی ہے، اقبال لطیف نے کہا کہ اردو کالج، جو آج اردو یونیورسٹی بن گئی ہے اگر اس کی تعمیر میں جمیل الدین عالی کا ہاتھ نہ ہوتا تو وہ آج بھی اردو کالج ہوتا، خالد معین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بڑے آدمی کی شناخت یہ ہے کہ وہ نئے آنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے۔

ایک مشاعرے میں جب نوجوان شعر کہہ رہے تھے تب انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا تھا کہ میں جب اس عمر میں تھا تو اتنے اچھے شعر نہیں کہتا تھا۔ جمیل عالی نے مختلف جہتوں میں کام کی جبکہ ملی نغموں کی طرزیں بھی انھوں نے خود بنائیں۔ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اور ’’اے میرے وطن کے سنجیلے جوانوں‘‘ جیسے جوشیلی ملی نغمے بھی انھوں نے تخلیق کیے۔

نصرت فتح علی خان نے ان کا لکھا ہوا نغمہ ’’میرا پیغام پاکستان‘‘ گایا، رخسانہ صبا نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ میں نے ان کی کتاب "انسان" پر تھیسسز کیا ۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے مختلف سوالات کیے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تمہارے ان سوالوں نے مجھے دوبارہ زندہ کردیا ہے اور ساتھ ہی جمیل عالی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش اس پر کام میری زندگی میں ہی مکمل ہوجائے، لیکن میرا کام مکمل ہوا تو جمیل عالی انتقال کرچکے تھے۔ ان کی نظموں میں رومانویت اور سائنسی طرزِ فکر بھی نظر آتی ہے۔ وہ سائنس فکشن پر بھی لکھتے تھے۔