پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

بل متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر منظور کیا گیا، پیکا ترمیمی ایکٹ آئین میں دی گئی آزادی اظہار کی ضمانت کے خلاف ہے اور اس کی منظوری سے یہ آزادی شدید متاثر ہوگی؛ درخواست میں مؤقف

Sajid Ali ساجد علی بدھ 29 جنوری 2025 10:32

پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 جنوری 2025ء ) پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق اس حوالے سے ممبر لاہور پریس کلب جعفر بن یار نے اپنے وکیل کے ذریعے درخواست دائر کی جس میں الیکشن کمیشن، پی ٹی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی نے پیکا ترمیمی بل کو منظور کیا، اسمبلی نے اپنے رولز معطل کرکے اس بل کو فاسٹ ٹریک کے ذریعے منظور کیا۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت فیک انفارمیشن پر تین برس قید اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے، جو آزادی اظہار کے حق کے خلاف ہے، ماضی میں پیکا کو ایک خاموش ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، اس بل کو متعلقہ سٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر منظور کیا گیا، پیکا ترمیمی ایکٹ آئین میں دی گئی آزادی اظہار کی ضمانت کے خلاف ہے اور اس کی منظوری سے یہ آزادی شدید متاثر ہوگی، اس لیے عدالت سے استدعا ہے پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔

(جاری ہے)

گزشتہ روز سینیٹ نے صحافیوں اور اپوزیشن کے اعتراضات کے باوجود پیکا ترمیمی بل 2025ء اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025ء منظور کرلیے، اس سلسلے میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیرصدارت اجلاس ہوا، رانا تنویر حسین نے محسن نقوی کی جانب سے پیکا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا، جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا، پیکا ترمیمی بل کی منظوری پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، قائد حزب اختلاف شبلی فراز سمیت دیگر اپوزیشن سینیٹرز اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے جب کہ صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کردیا۔

جس پر وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا کہ ’بل کا تعلق اخبار یا ٹی وی سے نہیں یہ قانون صرف سوشل میڈیا کو ڈیل کرے گا، صحافیوں کا اس بل سے کوئی معاملہ نہیں، یہ بل قرآنی صحیفہ نہیں اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے‘، اسی دوران حکومت نے سینیٹر کامران مرتضیٰ کے اعتراضات کی مخالفت کرتے ہوئے ان کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم مسترد کردیں، جس کے بعد سینیٹ میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل بھی منظور کرلیا گیا۔