سعودی وژن 2030ءعملی شکل اختیار کر چکا ہے، ترقی کیلئے تعاون ناگزیر ہے، عالمی میڈیا اداروں کے ساتھ شراکت داری مفید ثابت ہو سکتی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ کی سعودی میڈیا فورم کے تحت مباحثے میں گفتگو

جمعرات 20 فروری 2025 16:55

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 فروری2025ء) وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کا وژن 2030ءعملی شکل اختیار کر چکا ہے، فیک نیوز اور مس انفارمیشن سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج ہیں جو سماجی مسائل کا باعث بنتے ہیں، ہمیں اس چیلنج کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ترقی کے لئے تعاون بہت ضروری ہے، ترقی اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت کا استعمال منصفانہ ہونا چاہئے، پاکستان میں میڈیا کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے، عالمی میڈیا اداروں کے ساتھ شراکت داری مفید اور مثبت قدم ثابت ہو سکتی ہے، غزہ جیسے عالمی مسائل کے بارے میں صحیح اور حقیقی معلومات کی فراہمی ضروری ہے تاکہ دنیا وہاں ہونے والے مظالم سے آگاہ ہو سکے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سعودی میڈیا فورم 2025ءکے تحت ”علاقائی اور عالمی میڈیا کے درمیان شراکت داریاں مقامی میڈیا کو کس طرح آگے بڑھا سکتی ہیں؟“ کے موضوع پر منعقدہ مباحثے میں کیا۔ اس موقع پر دیگر مقررین میں ایف آئی پی پی کے سی ای او آلسٹیئر لیوس، ایس آر ایم جی تھنک کی منیجنگ ڈائریکٹر نیدا المبارک، میڈیا ڈائریکٹر،گورنمنٹ ریلیشنز ایکسپرٹ اور چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز ایس ایم ایف اینیمیشن یولیانا سلاشیوا شامل تھے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سعودی عرب کا وژن 2030ءسعودی ولی عہد کا شاندار منصوبہ ہے جو عملی شکل اختیار کر چکا ہے، سعودی عرب آ کر اس وژن کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ ایک متحرک میڈیا پر ہے جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جس میں میڈیا سے متعلق تمام جہتوں کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 24 کروڑ عوام کی سرزمین ہے جس میں 18 کروڑ عوام آن لائن سروسز سے منسلک ہیں، ہماری متحرک آبادی کا 60 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے امین ہیں جس کا مسکن دریائے سندھ کے کناروں پر تھا۔ ہمارے پاس سنانے کے لئے بہترین کہانیاں موجود ہیں، پاکستانی نہ صرف شاندار قوم ہیں بلکہ کے ٹو جیسی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹیوں کے محافظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہماری بنیادی توجہ ایک متحرک اور جدت پسند میڈیا پر ہے جو نہ صرف مختلف مسائل کو اجاگر کرے بلکہ عوام کی بھرپور نمائندگی کرے اور اصل ہنر اور ٹیلنٹ کو آگے آنے کا موقع فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ تعاون کے ذریعے دنیا کے ساتھ ہم قدم ہوا جا سکتا ہے، ایک ملک میں رہنا اور بات چیت یا تعاون کرنے کے قابل نہ ہونا چیزوں کو روک دینے کے مترادف ہے، ترقی اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سعودی ریسرچ اینڈ میڈیا گروپ (ایس آر ایم جی) کے حوالے سے ہمارے پاس اردو نیوز، عرب نیوز، انڈیپنڈنٹ اردو موجود ہیں جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ان کا نہ صرف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بلکہ ہمارے معاشرے میں سماجی مسائل پر بیداری پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ہے۔

عطاءاللہ تارڑ نے میڈیا اداروں میں تعاون کے فروغ، مقامی میڈیا کو مہارت کی ترقی اور اپنی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی شراکت داروں سے ہاتھ ملانا مقامی میڈیا اداروں میں ایک مثالی تبدیلی لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ہے کہ ہم ان مفاہمتوں کو مزید فروغ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے، نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اور خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ موجود ہیں، شرمین عبید نے شاندار دستاویزی فلم بنا کر آسکر ایوارڈ جیتا، ملالہ یوسفزئی تعلیمی کارکن ہیں جبکہ ثمینہ بیگ واحد خاتون ہیں جنہوں نے مائونٹ ایورسٹ اور کے ٹو سمیت دنیا کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کیا، یہ خواتین ہمارا فخر ہیں، اس قسم کی کہانیوں کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، ان کہانیوں میں بے لوث قربانی، ہنر، پہچان، نئی بلندیوں تک پہنچنے کی خواہش ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، اس ٹیلنٹ کو تیار کرنے کے لئے ہمیں بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت اچھے نیوز اور تفریحی چینلز موجود ہیں، مقامی میڈیا کی ترقی کے لئے ہمیں عالمی شراکت داروں کی ضرورت ہے جو مقامی میڈیا کو ان کی حقیقی صلاحیتوں تک پہنچانے میں معاون ہوں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سعودی میڈیا فورم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہم مزید تعاون پر بات کر سکتے ہیں۔ عطاءاللہ تارڑ نے مشترکہ انسانی مقاصد اور اہداف تک پہنچنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ایسے مسائل موجود ہیں جنہیں اجاگر کرنا ضروری ہے، بعض اوقات خبروں میں ہمیں صحیح تصویر نہیں ملتی، جہاں تک غزہ کے مسئلے کا تعلق ہے ہمیں اس بارے میں درست آگاہی کی ضرورت ہے کہ اصل زمینی حقائق کیا ہیں، صورتحال کیا ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ مظالم کیا ہیں اور غزہ کے لوگوں کو کس قسم کی انسانی مدد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ہم اپنی صلاحیتوں کا بہتر طریقے سے ادراک کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں جب عالمی رہنماﺅں سے پوچھا گیا کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج کیا ہے تو انہوں نے ایٹمی جنگ، موسمیاتی تبدیلی اور صحت کے خطرات کا ذکر نہیں کہا بلکہ انہوں نے فیک نیوز اور مس انفارمیشن کو سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر کوئی بین الاقوامی ادارہ ہونا چاہئے جس کے پاس حقائق کی جانچ کا نظام ہو اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے معلومات کی جانچ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے سب کو مل بیٹھ کر بات اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کچھ الگورتھم ہیں، جب ہم غزہ یا فلسطین کے بارے میں پوسٹ کرتے ہیں تو وہ چیزیں فوری ختم ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کا استعمال دنیا کے تمام لوگوں کے لئے مناسب اور منصفانہ ہونا چاہئے، اسے صرف ایک طرف جھکایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں اس بارے میں منصفانہ نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقائق کی جانچ کیلئے جامع نظام ہونا چاہئے جو مستند اور قابل اعتبار ہو جس پر لوگ بھروسہ کرسکیں۔ عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ عالمی میڈیا اداروں کی پاکستان کے مقامی میڈیا آئوٹ لیٹس کے ساتھ شراکت داری خوش آئند ہے، اس طرح کی شراکت داری سے شفافیت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔