اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 فروری 2025ء) آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پہلے نیوزی لینڈ اور پھر بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد میزبان ٹیم ایونٹ سے باہر ہوچکی ہے۔البتہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اپنا آخری گروپ میچ 27 فروری کو بنگلادیش کے خلاف راولپنڈی میں کھیلنا ہے۔ اگر پاکستان کو اس میچ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی ایونٹ میں میچ ہارنے کی ہیٹرک مکمل ہوجائے گی۔
دفاعی چیمپئین پاکستان گزشتہ ہفتے کراچی میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں اپنا پہلا میچ 60 رنز سے ہار گیا تھا۔ اس کے بعد اتوار کو روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں چھ وکٹوں سے شکست نے پاکستانی کرکٹ فینز کو شدید مایوس کر دیا۔
پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے امید کی جو آخری کرن تھی، وہ بھی بنگلہ دیش کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد ختم ہو چکی ہے۔
(جاری ہے)
سابق کپتان وسیم اکرم نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم گزشتہ چند سالوں سے ان کھلاڑیوں کو ٹرین کر رہے ہیں لیکن وہ نہ سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی ان کا کھیل بہتر ہو رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑی تبدیلی کا وقت ہے۔
ہمیں اپنے ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم معیاری کرکٹرز پیدا کر سکیں۔پاکستانی کھلاڑیوں کی بین الاقوامی سطح کی کرکٹ کے لیے عدم تیاری کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں مسابقت کی کمی اور غیر معیاری پچز کو زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ بورڈ، کوچنگ ٹیموں اور سلیکشن پینلز میں بار بار کی جانے والی تبدیلیوں سے بھی اس کھیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
مبصرین کے مطابق ایسی تبدیلیاں اکثر سیاسی ہوتی ہیں اور ان میں میرٹ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔سابق کپتان راشد لطیف نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں پاکستان کرکٹ کی حالت سے بہت افسردہ ہوں۔
ہمیں میرٹ کا خیال رکھنا ہوگا اور کھیل کی انتظامیہ میں پیشہ ور افراد کو لانا ہوگا نہ کہ سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی بھرتی کرنا ہوگی۔‘‘
ان کا ماننا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ، سلیکشن کمیٹی اور ٹیم کے کپتان کی بار بار تبدیلیاں مناسب سیٹ اپ اور ٹیم بنانے میں ناکامی کا سبب ہے۔
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کے ایونٹ کو پاکستان پہنچنے میں 29 سال لگے اور اس کے لیے پاکستان میں خصوصی سکیورٹی انتظامات کیے گئے۔ تاہم تمام تیاریوں کی باوجود ٹیم کی تیاری میں کمی نمایاں تھی۔
راولپنڈی میں مقیم 26 سالہ عمر سراج نے کہا، ''ہم پرجوش تھے کہ آخر کار ایک بین الاقوامی ایونٹ ہمارے ملک میں واپس آ یا ہے لیکن یہ خوشی بہت مختصر تھی۔
‘‘"پاکستان کے مداح ہونے کا سب سے مشکل حصہ یہ ہے کہ آپ دوسری ٹیموں کے ہارنے کے لیے دعا کرتے ہیں،" انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ "یہ تکلیف دہ ہے. میں رنجیدہ ہوں."
پاکستان کا کسی بھی انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ میں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2023 میں کھیلی گئی ایک روزہ میچوں کی سیریز میں بھی قومی ٹیم پہلے مرحلے میں باہر ہوگئی تھی۔
اس کے علاوہ پچھلے سال امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ایک ہی مرحلے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا چاروں شانے چت ہوجانا کوئی پرانی بات نہیں۔ اس ایونٹ کا فاتح بھی بھارتے ہی رہا تھا۔پاکستان گزشتہ ماہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ ہوم سیریز ڈرا کرنے کے بعد ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی عالمی رینکنگ میں میں نویں اور آخری نمبر پر رہا۔
ر ب/ ش ر (اے ایف پی)